اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)شوگر ملوں کا کرشنگ سیزن 15مارچ کو ختم ہو جائیگا ، روزنامہ جنگ میں حنیف خالد کی شائع خبر کے مطابق ایسوسی ایشن کے ذرائع کا کہنا ہے 15مارچ تک ملک کی 87شوگر ملیں 66لاکھ ٹن چینی پیدا کریں گی، اس لئے حکومت پاکستان کو چینی کی درآمد کی
پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان چینی کے معاملے میں خودکفیل ہے اور اسکی قیمت بھی معقول سطح پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں چینی کی ضرورت 58لاکھ ٹن سے زیادہ نہیں ہے جبکہ سندھ ،پنجاب ،خیبر پختونخوا کی 87سے زائد شوگر ملیں اعلی معیار کی 66لاکھ ٹن چینی پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ عالمی معیار کی چینی ہے جس کی موجودگی میں مصر ،برازیل، تھائی لینڈ، دوبئی وغیرہ سے گندھک والی بھارتی چینی درآمد کرنے کی پاکستان کو غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ جب ہمارے پاس 8لاکھ ٹن فاضل چینی کی پیداوار متوقع ہے تو حکومت کو مڈل مین کے گنا خریداری کے غیرقانونی مراکز کو کین کمشنر کو فوری بند کرانا چاہئے ورنہ چینی کے ایکس ملز ریٹ 82روپے کلو سے بڑھنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری کین کمشنر پر عائد ہو گی۔ ذرائع کے مطابق پنجاب کے کین کمشنرزمان وٹو کا کہنا ہے کہ 15مارچ 2021
تک پچھلے سال سے 5لاکھ ٹن زیادہ چینی ملک کی 87شوگر ملوں میں تیار ہو گی ،اس لئے ڈیوٹی فری اور ٹیکس فری پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنا درست فیصلہ نہیں ہو گا۔ دریں اثنا پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کین کمشنر زمان وٹو سے درخواست کی ہے کہ وہ گنے کے مڈل مینوں کے غیرقانونی خریداری کے مراکز فوری بند کرائیں تاکہ شوگر ملوں کو دو سے تین سو روپے من تک گنا خریدنے کی نوبت پیش نہ آئے۔