اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان کیلئے روٹیشن پالیسی نافذ کر دی گئی ہے جس کا اطلاق یکم جنوری 2021 سے ہو گیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم،
صوبوں نے رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دی ہیں کیونکہ یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ خصوصاً پنجاب نے گریڈ 21 کے ایسے کئی افسروں کو ریلیو کرنے کیلئے وقت مانگ لیا ہے جنہیں روٹیشن پالیسی کے تحت صوبوں سے باہر بھیجا جانا تھا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق وزیراعظم پالیسی پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہیں لیکن کئی رکاوٹیں ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر پالیسی کے معاملے میں استثنیٰ پیدا کیا گیا تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں حکومتوں کی جانب سے ایسی ہی جاری کردہ پالیسیوں کا ہوا تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف حکومتیں روٹیشن پالیسی متعارف کراتی رہی تھیں جنہیں بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے ایک بھی حکومت پالیسی پر عمل نہ کرا سکی کیونکہ بیوروکریٹس اتنے با اثر تھے کہ انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے صوبوں میں ملازمت جاری رکھنے کا انتخاب کیا۔ عموماً پنجاب بالخصوص لاہور کے بیوروکریٹس اکثر
و بیشتر مختلف حکومتوں کی جانب سے لائی جانے والی اس پالیسی کو ناکام بنانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے بھی بین الصوبائی ٹرانسفر کی اس پالیسی پر عمل کی کوشش کی لیکن ان کی حکومت بھی ناکام رہی کیونکہ صوبے
تعاون نہیں کر رہے تھے۔ بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد پالیسی تشکیل دی جائے جس کا نفاذ لازمی بنایا جائے اور نوٹیفکیشن کے اجرا اور عملدرآمد کے بعد اس میں کسی کو استثنیٰ نہ دیا جائے۔ ایک سال سے بھی زائد وقت تک صوبوں کے ساتھا طویل مشاورت
اور غور و فکر کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں پی اے ایس اور پی ایس پی کیلئے روٹیشن پالیسی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور اعلان کیا کہ اس پر یکم جنوری 2021 سے عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔ گریڈ 22 کے گزشتہ بیچ کو ترقی دیتے ہوئے، حکومت نے گریڈ 21 کے
ایسے افسران کی ترقی کے کیسز موخر کر دیے جو اپنے ڈومیسائل کے صوبے یا پسند کے صوبے سے باہر نہیں جا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افسران کا تعلق لاہور سے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ، ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ چونکہ وہ ترقی کیلئے موزوں ہیں لیکن ان کی ترقی کے معاملات
اس لیے موخر کیے گئے ہیں کیونکہ وہ اپنے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر خدمات انجام نہیں دے رہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنا دیگر صوبوں یا مرکز میں کیا جانے والا ٹرانسفر قبول کریں جس کے بعد یقینی بنایا جائے گا کہ مستقبل میں انہیں ترقی ملے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ
لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ افسران نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ نجی وجوہات کی بنا پر لاہور سے باہر خدمات انجام نہیں دے سکتے اور اسی لیے وہ اعلی ترین گریڈ 22 میں اپنی ترقی کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ روٹیشن پالیسی میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس
پر یکم جنوری 2021 سے عمل کیا جائے گا اور کسی کو استثنی نہیں ملے گا۔ یہ پالیسی افسران کی ترقی سے بھی جڑی ہے کیونکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پی اے ایس اور پی ایس پی افسران تمام حکومتوں میں مختلف گریڈز پر رہتے ہوئے کام کریں اور
ساتھ ہی افسران کی جانب سے حکومتوں پر دبائو ڈال کر برسوں تک ایک ہی حکومت میں کام کرنے کی کوششوں کا بھی خاتمہ ہو سکے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ معیاری استثنیٰ جیسا کہ نجی مشکلات پریشانیاں اور شریک حیات کے مقام ، جو ملک بھر کے مختلف کیڈرز اور محکموں میں
معمول بن چکے ہیں، پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ میں کسی کو بھی ایسا استثنی حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پی اے ایس اور پی ایس پی افسران پر شادی شدہ جوڑوں کیلئے مختص پالیسی (ویڈ لاک پالیسی) کا بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ اس پالیسی کے
تحت پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ کے افسران کے ٹرانسفر یا پوسٹنگ کیلئے درج ذیل کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ 1) پہلی ایلوکیشن، اور مخصوص تربیتی پروگرام کے بعد بعد سروس افسر کے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر۔ 2) گریڈ 17 تا 19 کے مرد افسران کیلئے سخت علاقوں میں
لازمی سروس۔ 3) ایک ہی جغرافیائی مقام پر مسلسل خدمات انجام دینے والے افسران کیلئے روٹیشن۔ 4) تمام حکومتوں میں، ہر گریڈ میں افسران کی کمی کیلئے ریشنلائزیشن کی جائے گی جس کیلئے کم سے کم روٹیشن والے افسر کو ایسی حکومت میں ٹرانسفر کیا جائے گا جہاں
اس گریڈ میں قلت پائی جاتی ہے۔ گریڈ 20 سے کم کسی بھی افسر کو مسلسل 10 سال تک کسی ایک حکومت میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ رخصت، تربیت اور غیر ملکی پوسٹنگ کے عرصے کو بریک نہیں سمجھا جائے گا۔ پالیسی کے تحت لازمی طور پر اگر کوئی افسر روٹیشن سے
گزرا تو مرد افسران اپنی گزشتہ دس سال کی خدمات والے صوبے میں نہیں جا سکے گا تاوقتیکہ وہ اپنی سابقہ دس سالہ پوسٹنگ کی حکومت کی جغرافیائی حدود سے باہر دو سال تک کام نہ کر لے۔ موجودہ افسران جنہوں نے کسی ایک حکومت میں دس یا اس سے زیادہ سال کے عرصہ تک
خدمات انجام دی ہیں؛ انہیں تین مراحل میں دیگر حکومتوں میں ٹرانسفر کیا جائے گا، یہ تین مراحل 6 ماہ پر مشتمل ہوں گے اور اس میں شروعات ایسے افسروں سے کی جائے گی جن کا پوسٹنگ کا عرصہ سب سے زیادہ ہے۔ خواتین افسران کو دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ٹرانسفر کیا
جائے گا۔ کسی بھی حکومت میں افسران کی قلت کو دور کرنے کیلئے، افسران کو دس سال مستقل خدمات انجام دینے کی پالیسی سے پہلے ہی ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے اور ایسا افسر پہلے ٹرانسفر ہوگا جس کی روٹیشن کم سے کم رہی ہو۔ کسی بھی مرد یا خاتون افسر کو گریڈ 21 میں پروموشن کا اہل نہیں سمجھا جائے گا اگر اس نے مستقل ایک ہی حکومت میں 10 سال کام کیا ہو اور تاوقتیکہ اسے اس حکومت سے باہر ٹرانسفر کیا گیا ہو۔ یہ شق پالیسی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے دو سال بعد قابل اطلاق سمجھی جائے گی۔