عمران خان کی وہ تقریر جسے حامد میر نے 2020 کی سب سے خطرناک تقریر قرار دیدیا

28  دسمبر‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم ”2020کی خوفناک تقریر” میں لکھتے ہیں کہ ابھی تو اپوزیشن نے اسلام آباد کی طرف نہ لانگ مارچ شروع کیا ہے نہ ہی اپنے استعفے اسپیکر کو بھجوائے لیکن وزیراعظم

نے دل دہلا دینے والی باتیں شروع کر دی ہیں۔ چکوال میں ایک یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو اِس سے پہلے آپ نے کسی وزیراعظم کی زبان سے نہ سنی ہوں گی۔وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ فوج میرا تختہ الٹ دے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو آرمی چیف کو ہٹا دے۔ وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ اپوزیشن کو این آر او دینا غداری ہوگی۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن چکوال میں کی جانے والی یہ تقریر سال 2020کی خطرناک ترین تقریر تھی۔ نجانے وزیراعظم نے یہ خطرناک تقریر چکوال میں کیوں کی لیکن یہ تقریر ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہی ہے۔ ہفتہ کی شب یہ تقریر ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن تھی۔اتوار کی صبح اِس ناچیز نے اردو اور انگریزی اخبارات میں اِس تقریر کو بار بار غور سے پڑھا اور یہ یاد کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں نے کون سے جلسے یا پریس کانفرنس

میں فوج کو موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کی دعوت دی؟یہ درست ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک پر کی جانے والی تقریروں میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر تنقید کی لیکن یہ تنقید 2018کے الیکشن میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے تھی۔ کسی بھی تقریر

میں نواز شریف نے فوج کو یہ نہیں کہا کہ عمران خان کا تختہ الٹ دو اور اگر آرمی چیف ایسا نہیں کرتے تو انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ نواز شریف کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، اختر مینگل اور دیگر رہنمائوں نے بھی اگر تنقید کی تو وہ سیاست میں

مداخلت کے بارے میں تھی۔پی ڈی ایم کے جلسوں میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگتے رہے۔ جو لوگ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگا رہے ہیں وہ فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں؟ چکوال میں عمران خان نے اپوزیشن پر جو الزام لگایا ہے اسے اتنی آسانی سے نظر انداز

نہیں کیا جا سکتا۔اگر واقعی اپوزیشن کے کسی رہنما نے جلسے میں تقریر یا پریس کانفرنس کے علاوہ کسی اور طریقے سے فوج کو منتخب حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی ہے تو قوم کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ ہو سکتا ہے اپوزیشن کے کسی رہنما نے کسی فوجی افسر کو کوئی

خفیہ خط لکھا ہو۔ویسا ہی خط جیسا 25اپریل 1977کو ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے فوجی افسران کو لکھا تھا اور کہا تھا کہ بھٹو حکومت کے غیرقانونی احکامات پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیراعظم کے اردگرد ایسے افراد موجود ہوں جو انہیں غلط اطلاعات

پہنچا رہے ہیں یا انہیں غلط مشورے دے رہے ہیں۔ جب وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کو این آر او دینا غداری ہوگی تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او کون دے سکتا ہے؟این آر او کی اصطلاح 2007میں مشہور ہوئی تھی جب جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کے

لئے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت یکم جنوری 1986سے 12اکتوبر 1999کے درمیان جن سیاستدانوں اور سرکاری افسران پر کرپشن، منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم کئے گئے انہیں معافی دے دی گئی۔اس این آر او کے بعد ساری بدنامی پیپلز پارٹی نے سمیٹی حالانکہ فائدہ اٹھانے والوں

میں بیرسٹر فروغ نسیم کے نیلسن منڈیلا اور مشرف کے اتحادی الطاف حسین سے لے کر بریگیڈیئر(ر) امتیاز اور بریگیڈیئر (ر) اسلم حیات قریشی سمیت بڑے بڑے بیورو کریٹ بھی شامل تھے جن کا پیپلز پارٹی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس این آر او کو سپریم کورٹ کے ایک فل بنچ نے

16دسمبر 2009کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد پاکستان میں کوئی کسی کو این آر او نہیں دے سکتا۔جنرل پرویز مشرف نے جب این آر او دیا تو وہ وردی میں تھے، اس کے باوجود ان کا این آر او برقرار نہ رہ سکا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف ایک

خاموش این آر او کے ذریعہ بیرون ملک گئے تھے اور واپس نہیں آئے۔ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ نواز شریف کو عدالت نے چند ہفتوں کے لئے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی لیکن اسے حکومت کی اجازت سے مشروط کیا تھا۔نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی

منظوری عمران خان کی کابینہ نے دی تھی۔ نواز شریف کئی ماہ تک واپس نہ آئے تو عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے دیا لہذا یہ طے ہے کہ نہ تو کوئی عدالت، نہ وزیراعظم نہ کوئی اور کسی کو بھی این آر او نہیں دے سکتا۔ پھر وزیراعظم بار بار یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا؟وزیراعظم عمران خان اپوزیشن پر جائز تنقید ضرور کریں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…