لکھنو ( آن لا ئن ) لکھنو کی عدالت نے 28 سال بعد بابری مسجد شہادت کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32ملزمان کو بری کردیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنو کی عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو کیس سے بری کردیا ہے ۔
مذکورہ کیس میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان کو نامز کیا گیا تھا۔عدالت نے مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت دیگربی جے پی رہنماؤں کو بھی بری کردیاکیس کے فیصلے کے موقع پر 26 ملزمان عدالت میں موجود تھے۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔عدالتی فیصلے میں واقعے کی ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم تصاویر کے نیگٹو پیش نہیں کرسکی جب کہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہے، مقامی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں اس طرح کے واقعات کے تسلسل کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا گیا تھا لیکن اسے نظر انداز کیا گیا۔ بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں نے شہید کر دیا تھا۔
ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی اور 28 سال سے جاری کیس کی سماعت کے دوران 16 ملزمان انتقال بھی کر چکے ہیں۔نومبر 2019 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ
سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا۔اگر491 سال قدیم بابری مسجد کے تنازع پر تاریخی موقف پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسجد کی ملکیت کا تنازع پہلی بار 1853ء میں اٹھا اور اسی
سال فسادات ہوئے، 1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا۔ دسمبر 1949ء میں ہندوؤں نے بت لاکر مسجد کے اندر رکھ دیے ، 1949ئ ہی میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے وزیراعلیٰ یوپی گووند پنت کو مسجد سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا۔