اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم ’’ہم آخر کرنا کیا چاہتے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ہمیں اب فکری مغالطوں سے نکل آنا چاہیے‘ ہمیں اب حقائق کو حقائق مان لینا چاہیے اور حقائق یہ کہتے ہیں عمران خان اپنا پورا زور لگانے کے باوجود میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو قید میں نہیں رکھ سکے‘ میاں برادران لندن میں بیٹھے ہیں اور آصف علی زرداری کے لیے
ائیر ایمبولینس بک کرائی جا رہی ہے‘ حکومت پندرہ دن سے دعویٰ کر رہی ہے ہم مریم نواز کو باہر نہیں جانے دیں گے جب کہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مریم نواز بھی لندن ضرور جائیں گی اور یہ اس وقت تک وہاں رہیں گی جب تک یہ خاموش رہیں گی۔مولانا فضل الرحمن تک محتاط ہیں‘ یہ بھی الیکشن میں دھاندلی کے ذمہ داروں کا نام نہیں لیتے‘ یہ بھی انہیں ”منے کا ابا“ کہتے ہیں‘ ن لیگ کے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے حقائق کو ”محکمہ زراعت“ کا نام دیتے ہیں‘احسن اقبال بچے تھے‘ یہ حقائق سے آنکھیں چرا رہے تھے لہٰذا یہ بھی آج شاہد خاقان عباسی بن چکے ہیں‘ عمران خان بھی غلط فہمی کا شکار ہیں‘ ان کو یہ حقیقتیں نظر نہیں آ رہیں‘ یہ جتنی جلد یہ حقیقتیں جان لیں گے ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ دوسری صورت میں ہواؤں کا رخ بدلتے دیر نہیں لگے گی بس چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ ہونے کی دیر ہے اور محمودوایاز دونوں برابر ہوجائیں گے۔ عمران خان شایدیہ ساری حقیقتیں مان لین لیکن ان کے باوجود ایک حقیقت اور بھی ہے‘ ہم بدقسمتی سے اس حقیقت کو فراموش کربیٹھے ہیں اور وہ حقیقت ہے معیشت‘ ہمیں جلد یا بدیر ماننا ہوگا ریاستیں طاقت سے نہیں چلتیں‘ معیشت سے چلتی ہیں اور معیشت خوف میں نہیں پنپتی‘ اس کے لیے قانون کی زمین‘ انصاف کی ہوا اور بے خوفی کی روشنی چاہیے ہوتی ہے اور ہم ہر روز اپنے حصے کا سورج‘ اپنے حصے کی ہوا اور اپنے پاؤں کی مٹی برباد کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہم دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ہمارا سفر پاتال کی طرف جاری ہے‘ ہم روز اس کی سپیڈ بھی بڑھا دیتے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم آخر کرنا کیا چاہتے ہیں؟