اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار عطا الحق قاسمی اپنے کالم ’’پوچھیں جو پوچھنا ہے!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔میں نے ایک ایسی گھڑی ایجاد کر رکھی ہے جو ٹائم بتاتی نہیں بلکہ الٹا ٹائم پوچھتی ہے، سو میرا اپنا معاملہ بھی اس گھڑی جیسا ہی ہے۔ پیشتر اس کے کہ کوئی مجھ سے مستقبل کا
حال جاننے کی کوشش کرے، الٹا میں اُس سے پوچھنے لگتا ہوں ’’جناب! آئندہ کیا ہونے والا ہے؟‘‘ اِس پر وہ سٹپٹا کر رہ جاتا ہے اور یوں اُن لامتناہی سوالات کا فوری ’’سدباب‘‘ ہو جاتا ہے جن کا سامنا پہلے سوال کا جواب دینے کے بعد مجھے کرنا پڑ سکتا تھا۔مستقبل کے حوالے سے کئے جانے والے سوال کا جواب دینے میں ایک اندیشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ’’سائل‘‘ آپ کے جواب سے مطمئن ہونے کی صورت میں اپنی ہتھیلی آپ کے سامنے پھیلا دے اور کہے ’’جناب لگے ہاتھوں ذرا یہ بھی بتا دیں کہ میری شادی میں رکاوٹیں ڈالنے والا کب فوت ہو گا؟‘‘ ظاہر ہے علمِ نجوم سے اگر مجھے کوئی واقفیت ہے تو بھی میں اس سوال کا جواب دینا پسند نہیں کروں گا اور اس کی وجہ ممکن ہے صرف سوال کرنے والا ہی جانتا ہو!میں جانتا ہوں یہ کالم پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال کلبلا رہا ہوگا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، حکومت جا رہی ہے یا نہیں۔ محض اپنی عزت رکھنے کے لئے آپ کو بتاتا چلوں کہ حکومت کے جانے یا نہ جانے کا انحصار سونامی پر ہے اگر اس ’’سونامی‘‘ کا قبلہ درست نہ ہوا تو موجودہ سیٹ اَپ برقرار نہیں رہے گا، بصورتِ دیگر سونامی کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی سے اپوزیشن کی مرجھائی ہوئی فصلیں دوبارہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگیں گی