پیر‬‮ ، 21 اکتوبر‬‮ 2024 

کسی نے دو بارہ سمری کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی، کیا لکھا ہے اور کیا بھیج رہے ہیں؟ججز صرف اللہ کو جوابدہ ہیں، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

datetime 27  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی دو بارہ سمری کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی، کیا لکھا ہے اور کیا بھیج رہے ہیں؟۔ بدھ کو دور ان سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسی نے دوبارہ سمری کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا لکھا ہے اور کیا بھیج رہے ہیں یہ بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزارتی معاملات ہیں غلطیاں ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس آرٹیکل کے تحت نئی تقرری ہوتی ہے، سمری میں تو وزیر اعظم نے سفارش ہی نہیں کی کہ توسیع دیں، وزیر اعظم نے نئی تقرری کی سفارش کی ہے اور صدر نے توسیع دی، لگتا ہے کسی نے کچھ دیکھا ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے جو دستخط کیے ہیں وہ بھی نئی تقرری کے ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریٹائرڈ افسر کی تقرری کی گئی، آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں اس کے بعد ان کی تقرری ریٹائرڈ جرنل کے طور پر ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی سمری پر لکھا ہوا ہے کہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف اس وقت تک ریٹائرڈ نہیں ہوتے جب تک وہ کمانڈ دوسرے جنرل کے حوالے نہ کریں۔اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں، پھر کہتے ہیں ریٹائر نہیں ہورہے، پھر کہا جاتا ہے آرمی چیف ریٹائر ہوتے ہی نہیں، آپ اس کی وضاحت کریں۔عدالتی بات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف کی مدت کم کر کے دوبارہ تعینات کیاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے جس سمری کو صدر نے منظور کیا اس میں تو ریٹائرڈ لکھا ہوا ہے۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی کو بغیر کمانڈ کے نہیں چھوڑا جا سکتا،

جس پر چیف نے ریمارکس دیے کہ کوئی نہیں چاہتا آرمی کمانڈ کے بغیر رہے، تاہم وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے، ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کی تعیناتی کی جارہی ہے، آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایا گیا، آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا، آپ خود کہتے ہیں کہ توسیع اور تعیناتی الگ چیزیں ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی باعزت ہوتے ہیں

لیکن وزارت قانون نے مسودوں میں غلطیاں کرکے ان کو بے عزت کرنے کی کوشش کی۔عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اسی طرح ہمارے ایک ریٹائرڈ جج دیدار شاہ کے چیئرمین نیب کے نوٹیفکیشن میں اتنی غلطیاں کیں کہ ان کی شخصیت داغدار ہوگئی، جسٹس ریٹائر دیدار شاہ کو وزارت قانون نے رسوا کیا، وزارت قانون کی وجہ سے دیدار شاہ کی تعیناتی کالعدم ہوئی، ابھی بھی وقت ہے حکومت دیکھے یہ کر کیا رہی ہے اعلیٰ ترین افسر کے ساتھ تو اس طرح نہ کریں۔جس پر اٹارنی جنرل نے انہیں جواب دیا کہ یہ کوئی نیا کام نہیں ہو رہا،

ماضی میں بھی توسیع ایسے ہی ہوتی تھی، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ماضی میں کسی نے کبھی توسیع کا عدالتی جائزہ نہیں لیا۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ رات کو اتنے بڑے دماغ بیٹھے لیکن پھر بھی غلطیوں پر غلطیاں کیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں، آئینی اداروں میں روز ایسا ہوتا رہا تو مقدمات کی بھرمار ہوگی، گزشتہ روز تک کوئی حل نکال لیں، ناجائز کسی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ غیرقانونی ہے تو ہمارا حلف ہے کہ کالعدم قرار دیں، ججز صرف اللہ کو جوابدہ ہیں،

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمانڈ کی تبدیلی ضروری تقریب ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمانڈ کی تبدیلی تو ایک رسمی کارروائی ہے۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوبارہ تعیناتی کا مطلب ہے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعینات کیا جانا، تعیناتی والا نوٹیفکیشن کہتا ہے کہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے، اگر ان کی توسیع نا ہوتی اور وہ ریٹائر ہو جاتے تو کیا ہوتا؟ جس پر جواب دیا گیا کہ وہ اپنے ماتحت کو کمانڈ دیتے، حکومتی نوٹیفکیشن میں مدت نہیں دی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں آپ دوبارہ تعیناتی لکھتے ہیں اور نوٹیفکیشن میں توسیع لکھتے ہیں،

آپ غلط کام کیوں کرتے ہیں، جب قانون موجود ہیں تو پھر کنونشن کہاں سے آگئے؟، کنونشن روایات ہیں جو برطانوی آئین سے اخذ کی گئی ہیں، جب آئین موجود ہے تو روایات کی کیا ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا تحریری قانون ہے کہ کنونشن برطانوی قانون میں ہیں، ہمارا قانون جہاں خاموش ہوتا ہے وہاں کنونشن کی ضرورت ہوتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت کے معاملے پر خاموشی ہے اس لیے کنونشن کا حوالہ دیا۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ، وزیراعظم اور صدر تینوں کی سمریوں میں نقطہ نظر الگ ہے، کل تک معاملیکا حل نکال لیں ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں، ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ

ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، پہلا معاملہ قانونی ہے، دوسرا طریقہ کار سے متعلق ہے اور تیسرا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات ہیں، پہلے 2 معاملات بہت اہم ہیں پھر ہمیں فیصلہ دینا ہوگا۔اس موقع پر عدالت نے سابق وزیرقانون فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی اپنا مسئلہ پاکستان بار کونسل کے ساتھ مل کرحل کرکے آئیں یہ نا ہو کہ آپ دلائل نا دے سکیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ (آج) جمعرات کو آپ اپنا ایسوسی ایٹ ساتھ لائیں وہ دلائل دے گا اور آپ اس کی معاونت کر سکیں گے، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے میرا لائسنس بحال کر دیا تھا، بار کی سیاست کی وجہ سے میرا لائسنس منسوخ ہوا جو بعد میں بحال ہو گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں یہ نا ہو کہ آپ کے لائسنس کی بحالی میں سارا فن گزر جائے۔

موضوعات:



کالم



فیک نیوز انڈسٹری


یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…

ڈنگ ٹپائو

بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…