اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف معاملے پر دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔اس موقع پراٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصارکررہے ہیں وہ توصرف افسران کیلئے ہے۔یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے، آپ کے آرمی چیف اس میں نہیں آتے۔ جس شق میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بہت سارے قواعد خاموش ہیں ، کچھ روایتیں بن گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں چھ سے سات جنرل توسیع لیتے رہے ، کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کر لیتے ہیں۔نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں۔ آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں۔ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 262 میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243/3 کے تحت کمیشن ملتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ دوبارہ تعیناتی کا ہے۔ 1948ء سے لے کر ابھی تک تقرریاں ایسے ہی ہوئی ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ بحث کب تک چلتی ہے، کچھ دیر وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو گئی ہے ۔