لاہور(این این آئی)لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد، سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کے لیے غیر مشروط طور پر چار ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی۔فاضل عدالت نے عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے ساڑھے 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ہائیکورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
لاہور ہائیکورٹ نے حکم میں کہا کہ نواز شریف علاج کی خاطر چار ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جاسکتے ہیں اور علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔قبل ازیں ہفتہ کی صبح دو رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو اس میں ابتدائی دلائل کے بعد متعدد مرتبہ سماعت ملتوی کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف، احسن اقبال، پرویز رشید، جاوید ہاشمی، امیر مقام، پرویز ملک، رانا ارشد سمیت دیگر رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری اشتیاق اے خان جبکہ قومی احتساب بیور کی جانب سے فیصل بخاری اور چوہدری خلیق الرحمن پیش ہوئے۔دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومتی میمورینڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ حکومت کے علم میں ہے نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کے وکیل بتائیں کہ کیا نواز ضمانت کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟۔عدالت نے شہباز شریف کی قانونی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔بعدازاں درخواست گزار کی قانونی ٹیم نے اس معاملے پر مشورہ لینے کے لیے 15 منٹ کی مہلت مانگی جس پر جس پر عدالت سماعت 15 منٹ تک ملتوی کردی۔
سماعت کا دوبارہ آغاز ہونے پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟ اور اگر ضمانت کے بعد ایسی شرائط لاگو ہوں تو کیا اس سے عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی یا نہیں؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے عدالت کی رٹ قائم کرنے کے لیے شرائط لاگو کی ہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟۔حکومتی وکیل نے کہا کہ ہم نے شرائط اس لیے لاگو کیں تاکہ نواز شریف واپس آ کر پیش ہوں۔
اگر نواز شریف بیرون ملک علاج کروانا چاہتے ہیں تو کروا سکتے ہیں مگر سابق وزیر اعظم عدالت کو مطمئن کریں۔اگر عدالت مطمئن ہو تو ہمیں نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر اعتراض نہیں۔شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں ہو تو حکومت مداخلت نہیں کرسکتی اور ہم نواز شریف کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ سابق وزیراعظم جب بھی صحتمند ہوں ملک میں آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں تحریری حلف نامہ دیدیتے ہیں کہ نواز شریف صحتیاب ہوکر پاکستان آئیں گے
جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو واپس لائیں گے؟۔عدالت نے مزید ریمارکس دئیے کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے تحریری حلف نامہ لے لیتے ہیں وفاق اسے دیکھ لے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ یہ تحریری حلف نامہ عدالت میں دیا جائے گا اور اگر حلف نامے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔اس دوران شہباز شریف نے کہا کہ للہ تعالیٰ نواز شریف کو صحت دے اور اللہ تعالی نواز شریف کو واپس لائیں گے۔عدالت نے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کر دیں
جس کے بعد عدالت نے ایک مرتبہ پھر سماعت 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔بعدزاں دوبارہ سماعت کا آغاز ہونے پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کی تحریری یقین دہانی کا دو صفحات پر مشتمل ڈرافٹ تیار کر کے ججز کے چیمبر میں جمع کرایا۔وکلا ء کی جانب سے جمع کرائے حلف نامے کے متن میں یقین دہانی کرائی گئی کہ نواز شریف صحتمند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔ڈرافٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف پاکستان کے ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں اور بیرون ملک میں موجود ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے
ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نواز شریف واپس آئیں گے۔عدالت کی جانب سے بیان حلفی کی کاپی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو فراہم کردی گئی جبکہ عدالت نے مقدمے کی سماعت ڈھائی بجے تک ملتوی کردی۔ساڑھے تین بجے تک شروع ہونے والی سماعت میں شہباز شریف کے وکیل نے نواز شریف کی یقین دہانی کا درافٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔وکیل نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے انڈر ٹیکنگ دی ہے کہ جیسے ہی نواز شریف صحتیاب ہوں گے واپس آئیں گے۔جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ جی وفاقی حکومت کا کیا موقف ہے؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ
ہمیں اس درافٹ پر اعتراض ہے۔مذکورہ ڈرافٹ میں نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے کب آئیں گے۔حکومتی وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی تھی اور25 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی مین اپیل بھی مقرر ہے،نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے،نواز شریف ضمانتی بانڈ جمع کرائیں۔عدالت نے اشتر اوصاف کو شہباز شریف کے اقرار نامے میں ترمیم کی ہدایت کی۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم توقع نہیں کرتے کہ نواز شریف بیان حلفی دے کرجائیں اورواپس نہ آئیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ اگر نوازشریف زیر علاج ہوئے اور وفاق نے طلب کرلیا تو پھر کیا ہوگا؟
عدالت نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پیش کرتے رہنے کی بھی ہدایت کردی۔اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ مل سکے گی جس پر اشتراوصاف نے جواب دیا کہ برطانیہ میں ہفتہ وار رپورٹ دینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔دورانِ سماعت وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی میں جو گارنٹی شہبازشریف نے دی ہے اس کوتسلیم کرتے ہیں۔جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے کہ ہر کوئی جانتا ہے نواز شریف کی صحت خراب ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافت کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے،
بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کہ ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔حکومتی وکیل نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہا کہ اگر حکومت کو انڈیمنٹی بانڈ جمع نہیں کرائے جاتے تو عدالت میں کرا دیں۔جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے کہ یہ عدالت حکومتی شرائط سے متعلق فیصلہ کرے گی۔فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے خیال سے یہ درست نہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت دی اور حکومت نے شرائط عائد کیں۔اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک ہو جاتی ہے تو وفاقی حکومت کا بورڈ نواز شریف کا معائنہ کر سکتا ہے۔بعدازاں عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کر کے فریقین وکلا کو دے گی اور اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا اور عدالت نے مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔بعدازاں عدالت کی جانب سے مجوزہ ڈرافٹ فریقین کے
وکلا ء کو فراہم کردیا گیا۔وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھاکہ ہما رے عدالتی ڈرافٹ پر تحفظات ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی کا کہنا تھا کہ کیا عدالت جو انڈر ٹیکنگ لا رہی ہے وہ ٹھیک نہیں؟وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیان حلفی پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو کیا ہو گا؟ عدالت کا کہنا تھا کہ پھر توہین عدالت کی کارروائی پر آپشن موجود ہے، صبح سے شام ہو گئی ابھی تک فریقین میں اتفاق نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت کے عدالتی ڈرافٹ پر اعتراض مسترد کرتے ہیں۔لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے سناتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا نام چار ہفتے کے لیے ای سی ایل سے نکالتے ہوئے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر چار ہفتوں میں طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو قیام میں توسیع ہو سکتی ہے۔ فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ جنوری کے تیسرے ہفتے سماعت کی جائے گی اور جنوری میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔