ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیراعظم کو گھر کے اندر جاکر گرفتار کیاجاسکتاہے،مولانافضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے حتمی ڈیڈ لائن دیدی، دھماکہ خیز اعلان

datetime 1  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کیلئے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے عوام کا سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کوان کے گھر کے اندر جاکر گرفتار کرلیں،کسی ادارے کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے،پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے،کسی ادارے کا پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں،

ہمیں کہا جاتا ہے سرحد پر تناؤ ہے آزادی مارچ نہ کریں دوسری طرف راہداری کھول بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں،کوئی مائی لعل مستقبل میں پاکستان کی سر زمین پر ناموس رسالتؐ کو چھیڑ نہیں سکے گا، ہمیں مذہب کارڈ استعمال کر نے کا کہا جاتاہے،ہم آئین کے مطابق بات کرتے ہیں، پاکستان اور اسلام ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے،میں میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں، میڈیا سے پابندی فوراً اٹھا لیں اگر نہیں اٹھائیں گے تو ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہونگے،آپ کہتے ہیں نوازشریف اور کرپٹ ہے،آپ کی پوری پارٹی فارن فنڈکھا گئی، پورا ٹبر چور ہے،ہم پر امن ہیں اور ہمارے پرامن ہونے کااحترام کیا جائے،رحیم یار خان میں ٹرین حادثہ کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے،رہبر کمیٹی موجود ہے،مشاورت کے ساتھ تجاویز طے کی جائیں گی۔ جمعہ کو آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ قومی اجتماع ہے ان کے جذبے اور ولولے کو سلام پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہاکہ ہمار ے اجتماع میں تمام سیاسی قائدین موجود ہیں،تمام جماعتوں کے قائدین کو خوش آمدید بھی کہتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ تمام جماعتوں کا باہمی یکجہتی کا فیصلہ درحقیقت قومی یکجہتی کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ کسی ایک تنظیم یا ایک جماعت کا نہیں پوری قوم کا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ سنجیدہ اجتماع ہے،پوری دنیا سنجیدگی سے لے۔ انہوں نے کہاکہ ہم فیصلہ کررہے ہیں،ہم اس ملک میں انصاف پر مبنی نظام چاہتے ہیں،

جو عوام کی مرضی سے ہو۔ انہوں نے کہاکہ یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، رحمت کا مہینہ ہے،اس کی نسبت رسول ؐ کے میلاد کی طرف ہے، اس مہینے کو احترام کے نظریئے سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اجتماع کررہے ہیں اور اللہ کی طرف سے رحمت برس رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اجتماع کتنا مبارک وقت میں ہورہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جب ہم نے دیکھا کہ یہاں ناموس رسالت ؐکی توہین اور عقیدت ختم نبوت کے خلاف سازشیں کر نے والے میدان میں اتررہے ہیں تو کہنا چاہتاہوں ربیع الاول اور ناموس رسالت ؐکا دفاع کیلئے مبارک اجتماع ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کئے ہوئے ہیں،مطالبہ ایک ہی ہے کہ 25جولائی کے الیکشن فراڈ الیکشن تھے،وہ بد ترین دھاندلی کا شکار ہوئے تھے،نہ نتائج کو تسلیم کر تے ہیں نہ حکومت کوتسلیم کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ایک ہی فیصلہ کر نا ہے کہ اس حکومت کو جانا ہے،ایک سال کی مہلت بہت مہلت ہے، مزید اس حکومت کو مہلت دینے کیلئے تیار نہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ قوم آزادی چاہتی ہے اس ملک میں نا اہلی کے نتیجے میں معیشت تباہ ہوگئی ہے جس ریاست کی معیشت بیٹھ جائے وہ ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھتی۔

انہوں نے کہاکہ اگر سویت یونین کا اپنا وجود برقرار نہیں رہا تو پاکستان بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے نا اہل حکمرانوں کو اعتراف کر تے ہوئے ریاست کی حاکمیت سے دستبر دار ہو جانا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ کشمیر کو بیچ دیا ہے،کہتے ہیں ہم کشمیر کی بات کررہے ہیں،ہمیں کہا گیا کہ آزادی مارچ نہ کریں،ایل او سی کے اوپر بھارت اور پاکستان کے بیچ بڑی ٹیشن ہے، سرحد کے حالات پیچیدہ ہیں،ہم نے کہا یہ ایک عجیب بات ہے،کشمیرکی سرحد پر تناؤ ہے جس کی وجہ سے جلسہ نہیں کر نا چاہیے لیکن دوسری طرف کر تار پورراہداری کھولنے کیلئے دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں،

ایک طرف کہتے ہیں ٹینشن ہے او دوسری دوسرا درازہ کھولنے کیلئے بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا ئی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج کشمیریوں کو تنہام چھوڑ دیا گیا ہے،کشمیریوں کو حکمرانوں نے مودی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کا اجتماع تمام سیاسی جماعتوں کا اجتماع ہے، یہ ایک آواز کیساتھ اعلان کرتا ہے حکومت کی پرواہ کئے بغیر عوام کشمیریوں کی جنگ لڑیں گے، ان کی حق خود ارادیت کی جنگ لڑیں گے اور کشمیری عوام کو کبھی بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرینگے۔انہوں نے کہاکہ ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے،مہنگائی نے گھیرکر لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ غریب آدمی صبح شام کیلئے راشن خریدنے کیلئے قابل نہیں رہے،

غریب مائیں اپنے روز گار کیلئے اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوگئی ہیں نو جوان خود کشیاں کر نے پر آگئے ہیں،رکشے والا اپنے رکشے کو آگ لگا رہاہے،چھوٹا دوکاندار اپنی دوکان کو برباد ہوتا دیکھ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ عوام جس کرب میں مبتلا ہیں کیاقوم کو ہمیشہ کیلئے ان نا اہل حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔انہوں نے کہاکہ ان لوگوں کو اپنی قوم کے غریبوں، مسکینوں، مزدورں، کسانوں، نو جوانوں، روز گار وں کیساتھ مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینگے،پچاس لاکھ گھر بنانا تو دور کی بات ہے،پچاس لاکھ سے زیادہ گرا چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ان نا اہل حکمرانوں نے لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے، غریبوں کے

روزانہ انٹرویو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کہا گیا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی، ایک کروڑ تو دو ر کی بات ہے،بیس سے پچیس لاکھ بے روز گار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں خوشحالی آئے گی، لوگ باہر آئیں گے،باہر سے دو بندے آئے ہیں ان میں ایک اسٹیٹ بینک کا گور نر اور ایف بی آر کا چیئر مین ہے،ان دوکے علاوہ کوئی نہیں ہے اور وہ بھی آئی ایم ایف نے بھیجے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جب پاکستان کی معیشت پر اس طرح کے سانپ بیٹھائے جائیں گے جو مغربی معیشت کو خوشحال بنائیں گے اور پاکستان کی معیشت کو ان کے آگے گروی رکھ دی گئیں،ہم پاکستان کی غلام معیشت کو تسلیم نہیں کر تے ہیں اور جو پاکستان کی بنیاد بنی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ

جب سٹیٹ بینک کا افتتاحی جلسہ ہورہاتھا،قائد اعظم نے کہا تھا کہ مغربی معیشت نے سوائے جنگوں اور فسادات اور تباہیوں کے ہمیں کچھ نہیں دیا،ہم مغربی معیشت کو تسلیم نہیں کر تے ہیں،ہم قر آن و سنت کے مطابق معاشی نظام چاہیں گے قائد اعظم کی روح پوچھ رہی ہے کہاں وہ معیشت ہے؟اور آپ نے میرے پاکستان کو غلام بنا دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ جس وقت پاکستان کی 1940میں قرارداد پاس ہورہی ہے قائد اعظم نے صرف پاکستان کا تصور پیش نہیں کیا تھا،یہودی فلسطینیوں کی سر زمین پر بستیاں آباد کررہے تھے،فلسطینیوں کی سر زمین پر یہودی بستیاں نا جائز ہیں،ہم حقوق کی جنگ لڑیں گے،یہ پاکستان کی پہلی تجویز ہے،یہ پاکستان کے قائد اعظم کی کمٹمنٹ تھی، پاکستان نے کہا ہم فلسطینیوں کیساتھ کھڑے رہیں گے۔

انہوں نے کہاکہ آج پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیا پاکستان کس کا پاکستان ہے؟کیوں پاکستا ن کے تصورات کو تبدیل کیا جارہاہے،آپ کا اجتماع مبارکباد اجتماع ہے،عوامی سیلاب اعلان کررہا ہے،کوئی مائی لعل مستقبل میں پاکستان کی سر زمین پر ناموس رسالتؐ کو چھیڑ نہیں سکے گا، مستقبل میں کوئی آئین پاکستان میں ختم نبوت کے عقیدت کو نہیں چھیڑ سکے گا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں مذہبی کارڈ استعمال کر نے کا طعنہ دیا جاتا ہے،مذہب کی آئین پاکستان تحفظ دیتا ہے،میں آئین میں رہتے ہوئے مذہب کی بات کرتا ہوں،میں آئین کی بات کرتا ہوں تم روکنے والے کون ہوتے ہیں؟ آپ مغرب کی چاپالیسیوں،وظیفہ خوری کیلئے پاکستان کو مذہب اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا،اسلام ہے تو پاکستان ہے،

پاکستان تو اسلام ہے۔انہوں نے کہاکہ آج نو جوانوں کا مستقل تاریک ہے،کہا جاتا ہے ہم کرپشن کے خلاف لڑ رہے ہیں، کہاجاتا ہے،نوازشریف کرپٹ ہے، زر داری کرپٹ ہے ہم چورڑوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ چند روز قبل ورلڈ اکانومک فورم کی رپورٹ پڑھیں، جس میں کہاگیاکہ ایک سال کے دور ان کرپشن کم ہونے کی بجائے ایک سے دو فیصد کرپشن میں اضافہ ہوگیا ہے،تم نے کرپشن میں اضافہ کیا ہے،تم چوروں کے چور ہو۔انہوں نے کہاکہ یہ پورے ملک سے آنے والا آزادی مارچ ہے، میڈیا پر پابندی ہے تاکہ دنیا کو پاکستان کے عوام کے جذبات سے آگاہ نہ کر سکیں۔ انہوں نے کہاکہ میں میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں میڈیا مالکان اور اینکرز پرسن سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ کھل کر آزادی مارچ کا حصہ بنیں،

ہم پابندیوں کے فیصلوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیا سے پابندی فوراً اٹھا لیں اگر نہیں اٹھائیں گے تو ہم بھی کسی پابندی کے پابند نہیں ہونگے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہ ہماری پر امن صلاحیتوں کا اظہار ہے،ہم پر امن لوگ ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر عوام کا سمندر یہ قدرت رکھتا ہے کہ وزیر اعظم کو ان کے گھر جا کر خود گرفتار کریں  چاہتے ہیں،اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں،ہم اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اگر محسوس کریں اس ناجائز حکومت کی پشت پر ادارے ہیں، نا جائز حکمرانوں کا تحفظ ہمارے ادا ر ے کررہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے پھر ہمیں نہ روکا جائے اداروں کے بارے میں ہم کیا رائے قائم کر تے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ آج میرے استاد کو سڑکوں کے اوپر گھسیٹا جاتا ہے،معمار قوم کو اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے،خواتین استانیوں کے چہرے پر تھپڑے مارے جارہے ہیں،تھانوں میں تذلیل کی جارہی ہے،جو قوم کو سنوارنے والے لوگ ہیں آج سزا پارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پشاور کا وہ ڈاکٹر جو لوگوں کے زخم پر مرہم پٹی کرتا ہے آج خود ان کے زخم سے خون رس رہا ہے،سڑک کو رنگین کررہاہے،ہسپتالوں میں پڑا ہے،جہاں یہ لو گ علاج کیلئے جاتے ہیں وہ خود زیر علاج ہیں،یہ ملک اس لئے بنا تھا کہ وہ ڈاکٹر بھی غیر محفوظ ہو، وکیل بھی رورہا ہے، استاد بھی رورہا ہے، میڈیا کا کارکن بھی رو رہا ہے اس کرب سے قوم کو نکالنا ہے تو دو دن کی مہلت ہے تو استعفیٰ دیں، ہم نے اس سے آگے فیصلے کر نے ہیں، ہم امن کے ساتھ ہیں،امن کا احترام کیا جائے،

قوم کے امن کا احترام کیا جائے،سیاسی جماعتوں کے امن کا حترام کیا جائے،مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر آزادی مارچ کے شرکاء نے ڈی چوک کی طرف سے جانے کیلئے آوازیں لگائیں تو مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آپ کی آواز میں نے سن لی ہیں، بلاول بھٹو زر داری، محمود خان اچکزئی، خواجہ محمد آصف، اویس احمد نور انی،احسن اقبال نے بھی سن لی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف اور آصف علی زر داری نے بھی سن لی ہے اور ہم جن کو سنانا چاہتے ہیں وہ بھی سن لیں۔انہوں نے کہاکہ ہم یہ تین دن اس لئے دیئے ہیں کہ تین دن رسول ؐ نے بھی غار میں پناہ لی تھی اس موقع پر جے یو آئی کے رہنما سومرو نے کہا ایک دن گزر گیا ہے اور آنے والے دو ن مزید ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ میں اپنے تمام اکابرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں،

بلاول بھٹو زر داری، اسفند یار ولی خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ڈاکٹر عبد المالک، محمود خان اچکزئی، آفتاب خان شیر پاؤ، اویس احمد نورانی، مسلم لیگ (ن)کے رہنما بھی موجود ہیں،پروفیسر ساجد میر، نوازشریف، آصف علی زر داری سمیت تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ جو ہماری سیاسی قیادت جیلوں میں ہے اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے شرکاء سے پوچھا کہ آ پ استعفے سے کم راضی ہو سکتے ہیں تو مجھے بتا دیں جس پر شرکاء نے گو نیازی گو کے نعرے لگائے۔مولانافضل الرحمن نے کہاکہ ڈاکٹرز، اساتذہ، تاجروں کے مطالبات مانیں جائیں اور حکومت اپنے فیصلے واپس لے،انہوں نے کہاکہ زمیندار اور کسانوں کے مطالبے بھی تسلیم کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹرین حادثہ میں 75مسافر شہید ہوئے ہیں بہت سارے زخمی ہوئے ہیں وہ ہمارے تبلیغی جماعت کے بھائی ہیں،

ان کے بھی دعا کریں،اللہ تعالیٰ ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ ٹرین حادثہ کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے یہ معلوم ہونا چاہیے یہ کوئی دہشتگردی کا واقعہ کا تو نہیں۔انہوں نے کہاکہ ریلوے نے کیا کمزور ی دکھائی ان سے پوچھا جائے ایسی کوتاہی کیوں کی؟۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی پوری پارٹی پر الزام ہے کہ فارن فنڈنگ کھائی ہے آپ کہتے ہیں یہ چور ہے وہ چور ہے مگر آپ کا تو سارا ٹبر چور ہے۔ انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ آپ اس میدان میں استقامت کے ساتھ رہیں،کوئی ساتھی یہاں سے نہیں ہلے گا اس میدان میں جمے رہناہے،اگر استعفیٰ نہ دیا تو ملکر فیصلہ کر نا ہے، اب فیصلہ آپ نے کر ناہے،ووٹ آپ کی امانت ہے،ووٹ آپ کی ملکیت ہے،اس پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم انشاء اللہ اس وقت تمام سیاسی رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں،رہبر کمیٹی موجود ہے،مشاورت کے ساتھ تجاویز طے کی جائیں گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…