اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 8 ہفتوں کیلئے ضمانت منظور تے ہوئے سابق وزیر اعظم کو ضمانت کے عوض 20لاکھ ر وپے کے ضمانی مچلکے جمع کرانے حکم دیا ۔ منگل کو اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف کی اپنے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو
طبی بنیادوں پر سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی ۔سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عامر فاروق نے حکومت پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ کیس سے متعلق آگاہ کریں، جیل میں قیدی کیلئے کیا اقدامات ہیں؟ وکیل حکومت پنجاب نے بتایاکہ وزیراعلی پنجاب کو بلانے پر آئینی اور قانونی پیچیدگیاں تھیںمگر اس کے باوجود بھی وزیراعلیٰ پنجاب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، عدالت نے جب بھی بلایا وزیر اعلی پیش ہوئے ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو جیل میں قیدیوں سے متعلق جاننے کیلئے بلایا ہے، قانون کی شقیں ہیں جس میں مریض قیدی کا خیال رکھا جانا چاہیے،کچھ چیزیں ہیں جو توجہ طلب ہیں، صرف پنجاب نہیں تمام صوبوں کے لئے۔انہوںنے کہاکہ نواز شریف نے تو درخواست دائر کر دی بہت سے بیمار قیدی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے، کوئی کینسر اور کوئی دوسری کسی مہلک بیماری سے، ان تمام قیدیوں کے لئے راہ دکھانا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عثمان بزدار صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں ان کے پاس اختیارات ہیں۔ اس دور ان وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار روسٹرم پر آئے اور کہاکہ میں خود بھی وکیل ہوں۔ انہوںنے کہاکہ میں جہاں بھی جاتا ہوں جیلوں کا وزٹ کرتا ہوں، میں پہلا وزیر اعلیٰ ہوں جس نے 8 جیلوں کا وزٹ کیا،مریض قیدیوں سے متعلق بھی ہماری بھرپور توجہ ہے،
ہم جیل ریفارمز کی پوری کوشش کر رہے ہیں،یہ کیس ہم سے متعلقہ نہیں ہے، نواز شریف صرف ہماری حراست میں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پنجاب حکومت نے نواز شریف کا خیال رکھنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے۔ وکیل نوازشریف خواجہ حارث نے کہاکہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ بی کلاس دے کر سی کلاس کر دی جائے۔ جسٹس عامر فارو ق نے کہاکہ بہتر نہ ہو گا کہ بی اور سی کلاس والا معاملہ ہی نہ ہو۔
عثمان بزدار نے کہاکہ ہم ایک پیکج لا رہے ہیں جس میں چیزیں دنوں میں گرائونڈ پر آئیں گی۔دوران سماعت ایم ایس سروسز ہسپتال نے کہاکہ نواز شریف کو ایک سے زیادہ بیماریاں ہیں، نواز شریف کے پلیٹ لٹس 30 ہزار تھے، نواز شریف کے پلیٹ لٹس بن رہے ہیں لیکن ساتھ تباہ بھی ہو جاتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ 30 ہزار پلیٹ لٹس کم ہوتے ہیں یا زیادہ۔ایم ایس نے کہاکہ 30 ہزار پلیٹ لٹس کم ہوتے ہیں،
نواز شریف کو ہارٹ اٹیک ہوا، بیلنس برقرار نہیں ہو رہا، ایک چیز کو کنٹرول کرتے ہیں تو دوسری بڑھ جاتی ہے،پلیٹ لٹس 50 ہزار تک بڑھائے تو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ کیا نواز شریف اس وقت ہسپتال کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ ایم ایس سروسز ہسپتال نے کہاکہ بالکل بھی نہیں۔نواز شریف کی 28 اکتوبر کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔ایم ایس نے کہاکہ ہارٹ اٹیک ہونے کی
وجہ سے نواز شریف کے پلیٹ لٹس دوبارہ گرا کر 30ہزار کرنا پڑے، سروسز ہسپتال کے ڈاکٹرز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف کی طبیعت بہتر ہو۔دور ان سماعت سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ذاتی ڈاکٹر عدنان نے نواز شریف کی طبیعت کے بارے میں عدالت کو اگاہ کیا ۔ڈاکٹر عدنان نے بتایاکہ نواز شریف کی حالت بہت تشویشناک ہے، نواز شریف کے پلیٹ لٹس بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے
لیکن وہ بڑھ نہیں رہے، نواز شریف کو ہارٹ سٹوک بھی ہو چکا ہے، نواز شریف کی جان کو ابھی تک شدید خطرہ ہے، ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ نواز شریف کے پلیٹ لٹس کیوں کم ہوئے۔ڈاکٹر عدنان نے کہاکہ جب تک بیماری کا پتہ نہ چل جائے علاج نہیں ہو سکتا، ہومیوگلوبن سے نواز شریف کا بلڈپریشر اور بلڈشوگر بڑھ گیا۔ڈاکٹر عدنان نے کہاکہ 20 سال سے نواز شریف کا ڈاکٹر ہوں لیکن ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی،
نواز شریف زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وکیل نوازشریف خواجہ حارث نے کہاکہ 24 اور 25 اکتوبر کی درمیانی رات نواز شریف کو ہارٹ اٹیک ہوا، رپورٹ میں کہا گیا کہ سینے میں درد ہوا لیکن وہ ہارٹ اٹیک تھا، نواز شریف کے پلیٹ لیٹس بڑھتے ہیں تو ہارٹ اٹیک کا چانس بھی بڑھ جاتا ہے،نواز شریف کی زندگی کو خطرہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ عدالت نے نواز شریف کو سات سال سزا سنائی ہے،
جب ایک بندہ رہے گا ہی نہیں تو سزا کس کو دیں گے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے استفسار کیاکہ ابھی تک کے علاج سے آپ مطمئن ہیں؟خواجہ حارث نے جواب دیاکہ علاج سے حالت ٹھیک نہیں ہورہی، مطمئن نہیں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم ڈاکٹروں کی کاوش اور جذبے کو ساہتے ہیں، مگر نواز شریف ٹھیک نہیں ہورہے، علاج بھی ایک چھت تلے دستیاب نہیں، گردوں کے ٹیسٹ کیلئے
دوسرے ہسپتال سے کرانے پڑتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف رہیں گے نہیں، تو سزا کا کیا ہوگا، ڈاکٹر بہت قابل ہیں، مگر ان کا رزلٹ نہیں آرہا،ڈاکٹر کہتے ہیں، حالت ٹھیک ہوگی تو باقی ٹیسٹ ہونگے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ہم صرف یہ نہیں کہہ رہے کہ باہر سے علاج کرانا ہے، ہمیں اپنی مرضی کا علاج کرانا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جب کسی بھانسی کے ملزم کو بھی ایشو ہو تو علاج کروایا جاتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہاکہ ہمارے پاس سپریم کورٹ کی ہارڈشپ کیسز میں ضمانت دینے کی مثالیں موجود ہیں، اس سے زیادہ ہارڈشپ کا کیس کیا ہو گا۔وکیل نواز شریف خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ دو ہزار پلیٹ لٹس اور ہارٹ اٹیک میں نواز شریف بچ کیسے گئے، جان تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اللہ کا حکم ہے کہ جان بچانے کیلئے کوشش بھی کی جائے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر ضمانت دے دی جائے
اور وہ ایک مہینے میں صحت مند ہو جائیں تو کیا ہو گا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اس صورت میں ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ 401 کریمنل پروسیجر کے تحت ایگزیکٹو کے پاس رہائی دینے کے اختیارات ہیں،426 عدالت کے پاس میرٹ یا میرٹ کو دیکھے بغیر سزا کو معطل کر کے ضمانت دینے کے اختیارات ہیں۔ وکیل نوازشریف نے کہاکہ ڈاکٹر کی
ٹریٹمنٹ پر ہمیں کوئی گلہ نہیں،ایک چھٹ ت تلے تمام سہولیات دستیاب ہوں۔خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر نیب پراسیکوٹر جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آ گئے اور کہاکہ سپریم کورٹ نے علاج کے لیے چھ ہفتوں کیلئے سزا معطل کی تھی۔جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے سزا معطلی کے وقت کچھ پیرامیٹرز طے کیے تھے ۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ عدالت نے واضح کیا تھا کہ نواز شریف ان
چھ ہفتوں کے دوران ملک سے باہر نہیں جا سکتے ۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ چھ ہفتوں میں پاکستان میں اپنی مرضی کا علاج کرانے کا کہا گیا تھا۔نیب پراسیکوٹر جہانزیب بھروانہ نے سپریم کورٹ کے طے کردہ پیرا میٹرز سنا ئے ۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہاکہ نیب کی سزا پر 426 لاگو نہیں ہوتا، نیب کی سزا پر 426 لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ 401 کے پاور کو
وقافی حکومت یا صوبائی حکومت امپوز کریگی۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیاکہ قید کو وفاقی کہ صوبائی حکومت ریگولیٹ کرتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر لاہور نیب کورٹ کسی کو سزا دیتی ہے تو صوبائی کے پاس اختایر جاتا ہے اگر وفاق دیتا ہے تو کس کے پاس جائے گا، اسلام آباد کے اپنے جیل نہیں ہے، وہ سزا پر
عمل درآمد کیلئے پنجاب جاتی ہے، اگر لاہور نیب کورٹ کسی کو سزا دیتی ہے تو صوبائی کے پاس اختیار جاتا ہے اگر وفاق دیتا ہے تو کس کے پاس جائیگا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اسلام آباد کی اپنے جیل نہیں ہے، وہ سزا پر عمل درآمد کیلئے پنجاب جاتی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ کسی نے سوچا نہیں کے اسلام آباد کے لوگوں کی جیل ہوگی، اسلام آباد میں جیل ابھی بن رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ
جلدی جلدی جیلیں بنائیں تاکہ آباد ہوں۔جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر اسلام آباد کی سزا ہو اس پر رہائی کا اختیار وفاق کے پاس ہے کہ صوبہ کے پاس ۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق محمود نے کہاکہ رہائی کے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ڈاکٹر قیدی کی رپورٹ بنائے، اور جیل سپرٹنڈنٹ اس کو رہا کردے۔ انہوںنے کہاکہ عدالت کو اس سے الگ نہیں کرنا چاہیے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ قانون کی اپنی منشا ہے،ایگزیکٹو اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرتی۔ ایڈیشنل نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم میرٹ پر نہیں جانا چاہتے، میں صرف کہا کہ نظیریں موجود ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیاکہ اگر ہم آپ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹائم فریم کیا ہوگا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ کا ٹائم فریم آپ کے سامنے ہے۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ
عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کر دے، اس عرصے کے دوران نئی میڈیکل رپورٹ منگوا کر اس کا جائزہ لیا جائے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ٹائم فریم نہیں ہونا چاہئے،موجودہ حالات سپریم کورٹ کے فیصلے کو کور نہیں کرتے۔ انہوںنے کہاکہ نواز شریف کو ائیر ایمبولنس میں منتقل کیا جاسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے ہمیں یہ اجازت دی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ علاج بیرون یا اندرون ملک کہیں سے بھی کرایا جا سکتا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اپیل جب سے زیر سماعت ہے، اگر دلائل ہوتے تو اب تک اپیل پر بھی فیصلہ ہو جاتا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ابھی تک جج وڈیو سکینڈل والے معاملے پر بھی سماعت مکمل نہیں ہو سکی۔خواجہ حارث نے کہاکہ آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ہم آپ کو الزام نہیں دے رہے۔نیب نے نواز شریف کی مستقل ضمانت کی مخالفت کردی۔ عدالت نے نیب سے استفسار کیاکہ ہفتے کے روز تو آپ نے انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا بیان دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیاکہ آپ کے دلائل کے مطابق اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ جب معاملہ عدالت میں
زیر سماعت ہو تو ایگزیکٹو کوئی آرڈر جاری نہیں کر سکتی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہو تو عدالتی کارروائی کو ایگزیکٹو آرڈر سے فرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے علاوہ سزا کاالعدم قرار دینے کی اپیل بھی اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے
صدر مملکت سزا معاف کر سکتے ہیں؟ ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں، روایت لیکن یہ ہے پہلے تمام فورمز پر اپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ ایک بندہ جب ٹی وی پر بول رہا ہے کہ ہم نے نہیں کرنا عدالت جو چاہے کرے، اس سے کیا تواقع کی جا سکتی ہے۔جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا اپیل کا فیصلہ ہونے سے پہلے صدر مملکت سزا معاف کر سکتے ہیں؟ ۔
خواجہ حارث نے کہاکہ صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں، روایت لیکن یہ ہے پہلے تمام فورمز پر اپیل کا فیصلہ ہوتا ہے، ایک بندہ جب ٹی وی پر بول رہا ہے کہ ہم نے نہیں کرنا عدالت جو چاہے کرے،اس سے کیا تواقع کی جا سکتی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ نیب کے سوا ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے موقف میں واضح ہی نہیں، وزیراعظم اور وزیر اعلی کسی
جماعت کے نہیں بلکہ پورے ملک اور پورے صوبے کے ہوتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے تو تین دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پر یہ بیان دیا؟۔خواجہ حارث نے کہاکہ اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لا افسر ہیں، سب ٹی وی چینلز نے ان کا بیان نشر کیا، ہم عدالت کے پاس آئے ہیں، آپ قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کر دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گی، پورے پاکستان کا perception ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ ہو گا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ زیر سماعت مقدمات پر ٹی وی چینلز پر پروگرام نہیں ہونا چاہیے، ہمارا ایک روم بننا چاہیے، ایک ٹرائل عدالت میں آیا اسی رات پروگرام میں دلائل بھی ہو گئے سزا بھی ہو گئی
اور ملزم ملک سے باہر بھی چلا گیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ کو میڈیا پر بیٹھنا چاہیے، آپ بہت اچھے طریقے سے سمجھاتے ہیں، جو بیٹھتے ہیں وہ وکیل بھی نہیں ہوتے۔دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سنایا گیا ۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ 8 ہفتوں کے لیے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطل کردی ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اگر 8 ہفتوں تک ملزم می طبیعت خراب رہتی ہے تو سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کیلئے
ایگزیکٹو اتھارٹی اور متعلقہ صوبائی حکومت سے رابطہ کیا جائے۔عدالت نے سابق وزیراعظم کو ضمانت کے عوض 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے نوازشریف کی درخواست پر زبانی فیصلہ سنایا جس کا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کے مرکزی اپیل پر سماعت 25 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ۔