کراچی ( آن لائن) سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے مجھ سمیت صدر،وزیر اعظم اور افواج پاکستان کے ہر افسر پر آئین کی پاسداری کرنا لازم ہے ، نہ کوئی جنگ لڑی نہ کسی عسکری قوت نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا، ایک سوچ اور نظریے پر یقین رکھنے والوں نے دوسروں کو قائل کیا، نا ممکن ممکن میں تبدیل ہوگیا۔
پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہی سمجھیں، اس معجزے کو برقرار، محفوظ رکھنے کے لیے نے ایک طریقہ کار مہیا کردیا، اس طریقہ کار کو ہم آئین کہتے ہیں، جس کا پورا نام آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، آئین میں یہ جب جمہوریت کمزور ہوتی ہے، ایک شخص کی آواز عوام کی آواز کو دبا دیتی ہے تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے، کسی اور ادارے پر انگلی اٹھانے سے پہلے میں اپنے ادارے ہی کی بات کروں گا، عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کرے، ادارے اور ملک تب مضبوط ہوتے ہیں جب اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں،قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا، آئین کی تہمید میں یہ مزید کہا گیا ہے کہ جمہوریت کو قائم رکھنا ایک فریضہ ہے، اگر ہم ان ہی جمہوری اصولوں پر گامزن رہیں گے تو ہماری قومی سالمیت برقرار رہے گی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 72 سال پہلے آزادی حاصل کی، نہ کوئی جنگ لڑی نہ کسی عسکری قوت نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا، ایک سوچ اور نظریے پر یقین رکھنے والوں نے دوسروں کو قائل کیا، نا ممکن ممکن میں تبدیل ہوگیا، پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہی سمجھیں، اس معجزے کو برقرار، محفوظ رکھنے کے لیے نے ایک طریقہ کار مہیا کردیا۔
اس طریقہ کار کو ہم آئین کہتے ہیں، جس کا پورا نام آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، آئین میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عوام نے یہ آزاد ملک حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا، آئین کی تہمید میں یہ مزید کہا گیا ہے کہ جمہوریت کو قائم رکھنا ایک فریضہ ہے، اگر ہم ان ہی جمہوری اصولوں پر گامزن رہیں گے تو ہماری قومی سالمیت برقرار رہے گی، تہمید میں آزاد عدلیہ کا بھی بالخصوص ذکر ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کے شروع ہی میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، آئین کی شق 199 اور شق (3)184 سے عدلیہ بنیادی حقوق پر عمل درآمد یقینی بناتی ہے، اگر کوئی شخص، ادارہ بنیادی حقوق سے تجاوز کرے توعدلیہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ اسے روکے، تاریخ عکاسی کرتی ہے کہ ادارے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کریں تو لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں، پاکستان بننے کے بعد پہلے جنرل ایوب پھر یحییٰ خان آئے، جمہوری طرز عمل کو نظر انداز کیا گیا اور نتیجتاً ہم آدھے پاکستان سے محروم ہوگئے۔
عدلیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر شخص اور ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے، جب ادارے اختیار سے تجاوز کرتے ہیں تو بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں، ملک کمزور اور ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب جمہوریت کمزور ہوتی ہے، ایک شخص کی آواز عوام کی آواز کو دبا دیتی ہے تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے، عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کرے، ادارے اور ملک تب مضبوط ہوتے ہیں جب اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔
کسی اور ادارے پر انگلی اٹھانے سے پہلے میں اپنے ادارے ہی کی بات کروں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وفاق اور چاروں صوبوں نے موبائل فون پر ٹیکس لگائے، نامعلوم تحریری شکایت پر سپریم کورٹ نے شق 184 (3) تحت ٹیکسز معطل کردیے، موبائل ٹیکسوں کے خلاف حکم امتناعی کا جواز نہیں تھا، کیوں کہ ٹیکس بنیادی حقوق میں شامل نہیں، جس مدت میں سپریم کورٹ نے موبائل فون ٹیکسز معطل رکھے ملک کو 100 ارب کا نقصان ہوا، یہ 100 ارب روپے اب اکٹھے نہیں کیے جا سکتے، اعلیٰ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ جو حکم جاری کررہی ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پانے والوں پر آئین کی پاسداری لازم ہے، وہ اس کا حلف اٹھاتے ہیں، مجھ سمیت صدر، وزیراعظم اور افواج پاکستان کے ہر افسر پر آئین کی پاسداری کرنا لازم ہے۔