اسلام آباد( آن لائن )سپریم کورٹ نے پاک ترک اسکولز کی حوالگی سے متعلق کیس میں پاک ترک اسکولزانتظامیہ کی نظر ثانی اپیل خارج کردی ہے۔ جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپیل کی سماعت کی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ترک حکومت اور ترک سپریم کورٹ بھی اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا دیگر 40 ممالک بھی ان اسکولوں کو بند کر چکے ہیں۔ حکومت پاکستان ترک حکومت کیساتھ ہے۔پاک ترک اسکولز کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کوئی دہشت گرد تنظیم فنڈنگ نہیں کر رہی بلکہ ترک عوام فنڈ دے رہے ہیں۔ ملائیشیا میں ان اسکولوں کو بند نہیں کیا گیا۔اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر ملائیشیا چلے جائیں۔کیا آپ نام بدل کر لوگوں کو دوبارہ بیوقوف بنانا چاہتے ہیں؟ اس طرح تو دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی پاکستان میں ادارے کھولنا شروع کر دیں گی۔وکیل پاک ترک اسکول نے کہا کہ پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ نے تنظیم کی منظوری دی تھی۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ابھی وزارتوں نے عدالت میں آکر کہا کہ یہ دہشت گرد تنظیم بن چکی ہے۔اس تنظیم کے ذریعے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کی جارہی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے وکیل سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ ایک دہشت گرد تنظیم کا عدالت میں آکر دفاع نہیں کر سکتے۔سپریم کورٹ نے پاک ترک اسکولز کی حوالگی سے متعلق کیس میں پاک ترک اسکولزانتظامیہ کی نظر ثانی اپیل خارج کردی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دسمبر 2018 میں فتح اللہ گولن سے منسوب پاک ترک انٹرنیشنل ایجوکیشن فانڈیشن کو دہشتگرد تنظیم قرار دینے سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کیا تھا۔15
صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا تھا جس کے مطابق آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور ایشین پارلیمنٹ اسمبلی کے فیصلوں کی روشنی میں تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ترکی بھی مذکورہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے جب کہ پاکستان کے ترکی کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں اور پاکستان بین الاقوامی سفارتی معاہدوں پر عمل درآمد کا پابند ہے۔عدالت نے پاک ترک اسکولز کا انتظام معارف فائونڈیشن نامی تنظیم کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔