آج لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی سزا معطل کر دی‘ یہ راولپنڈی کے عوام اور ن لیگ دونوں کیلئے بڑی خبر ہے‘ اس رہائی کے بعد یہ سچ سٹیبلش ہوتا نظر آ رہا ہے کہ ن لیگ کا مشکل وقت ختم ہو رہا ہے‘ میاں نواز شریف ضمانت پر گھر بیٹھے ہیں‘ مریم نواز اورکیپٹن صفدر بھی ضمانت پر ہیں‘ میاں شہباز شریف لندن جا چکے ہیں‘ نیب کو حمزہ شہباز شریف کے ایشو پر پسپائی اختیار کرنی پڑ گئی اور حکومت ریڈوارنٹ کے باوجود میاں نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو بھی لندن سے واپس نہیں لا سکی‘
دوسری طرف آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ضمانتوں میں بھی توسیع پر توسیع ہوتی چلی جا رہی ہے‘ ان حالات میں حنیف عباسی کی بریت نے حکومت کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا‘ اب اگر زرداری صاحب بھی اپریل میں گرفتار نہیں ہوتے اور خواجہ سعد رفیق کی ضمانت بھی ہو جاتی ہے تو پھر کرپشن کے خلاف حکومت کا پورا بیانیہ خطرے میں پڑ جائے گا‘ حکومت کی بیڈ گورننس‘ بیڈ پرفارمنس اور آنے والا عوام دشمن بجٹ کرپشن کے بیانیے کو مکمل طور پر دفن کر دے گا لیکن آپ کمال دیکھئے حکومت کے تمام وزراء حتیٰ کہ خود وزیراعظم بھی اپنا کام چھوڑ کر این آر او نہیں دیں گے کے اعلان پر اعلان کرتے چلے جا رہے ہیں، آپ کسی وزیر کی پریس کانفرنس دیکھ لیجئے یہ آپ کو اپنی وزارت کی بات کم اور این آر او اور احتساب کی بات زیادہ کرتا نظر آئے گا‘ آج ریونیو کے وزیر حماد اظہر نے بھی پریس کانفرنس کی‘ یہ بھی ریونیو کی بات کرنے کی بجائے این آر او نہیں دیں گے کا دعویٰ کر کے واپس چلے گئے‘ سوال یہ ہے نیب جب عدالتوں کو مطمئن نہیں کر پا رہا اور جس شخص کا بھی مقدمہ چلتا ہے وہ ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے تو این آر او کون لے گا اور کون دے گا‘ کیا حکومت کوان تبدیلیوں کا ادراک نہیں ہو رہا، جبکہ وزیراعظم نے 9اپریل کوغیرملکی صحافیوں کو انٹرویو میں نریندر مودی کے بارے میں فرما دیا‘بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے بہتر ماحول بن سکتا ہے‘ اپوزیشن اسے عمران خان کی طرف سے مودی کی الیکشن کمپیئن قرار دے رہی ہے‘ مولانا فضل الرحمن نے کل اس پربہت خوبصورت تبصرہ کیا، وزیراعظم کو یہ فرنٹ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟۔