جنگل میں ایک بار شیر نے اعلان کیا میں جب وزیراعظم بن جاؤں گا تو میں تمام جانوروں کو وول کی شالیں دوں گا‘میٹنگ میں ایک بھیڑ بھی موجود تھی‘ اس نے شیر سے پوچھا‘ محترم وزیراعظم یہ بتائیے آپ وول کی شالیں بنانے کیلئے وول کہاں سے لیں گے‘ شیر نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور منہ دوسری طرف کر لیا‘ آپ نے یہ کہانی سن لی‘
آپ اب آج کے وزیراعظم اور وزیر خزانہ دونوں کے ماضی کے دعوے اور ٹویٹس ملاحظہ کیجئے اور اب ان دعوؤں اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ دیکھئے اور پھر اس بھیڑ کے بارے میں سوچئے جس کے سوال پر جنگل کے بادشاہ نے مسکرا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا‘ یہ حکومت جس وقت اقتدار میں آئی تھی تو عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 74 اعشاریہ 21 ڈالر فی بیرل تھی‘ پاکستان میں اس کی قیمت 95 اعشاریہ 24 روپے تھی‘ آج عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت 74 ڈالر سے کم ہو کر 67 اعشاریہ 82 ڈالر ہو گئی ہے لیکن کیونکہ بادشاہ سلامت نے وول کی شالیں بنانے کیلئے بھیڑ کی کھال اتارنا شروع کر دی ہے چنانچہ پٹرول کی عالمی قیمت سات ڈالر کم ہونے کے باوجود ہم نے چھ روپے بڑھا دی‘ ماہرین کہتے ہیں اس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا لیکن میں کہتا ہوں نہیں۔ اس سے برکت میں اضافہ ہوگا کیونکہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اس حکومت کی برکت سے طوفان ہو یا مہنگائی ملک میں ہر چیز حلال ہے‘ ابھی تو چیخیں نکلنا شروع ہوئی ہیں‘ آپ جون تک دیکھئے گا کیا ہوتا ہے‘ بھیڑوں کے جسم سے کتنی کھال اتاری جاتی ہے اور کتنی نئی شالیں بنائی جاتی ہیں‘ ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں، قریشی صاحب قانون اور آئینی بات کر رہے ہیں لیکن پارٹی نے اپنے وائس چیئرمین کی قانونی اور آئینی بات کی مخالفت شروع کر دی‘ فواد چودھری‘ فیصل ووڈا‘ مراد سعید نااہل جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں‘ کیا شاہ محمود قریشی کی رخصتی کا وقت بھی آ چکا ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور وزیراعظم نے بے نظیر انکم سپورٹ کا نام تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا‘ یہ ایک آئینی ادارہ ہے‘ حکومت پارلیمنٹ کی مدد کے بغیر اس کا نام کیسے تبدیل کرے گی‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔