ترقی یافتہ ملکوں میں ادارے اہم اور شخصیات غیر اہم ہوتی ہیں‘ لوگ آئیں‘ لوگ نہ آئیں اور لوگ آ کر چلے جائیں اداروں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا‘یہ وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں جبکہ پسماندہ ملکوں میں شخصیات اہم اور ادارے غیر اہم ہوتے ہیں‘ ایک اچھا باس آ گیا تو ادارہ اچھا ہو گیا‘ برا آ گیا تو ادارہ برا‘ ایکٹو آ گیا تو ادارہ ایکٹو اور نالائق باس آ گیا تو پورا ادارہ نالائق ہو جاتا ہے‘ ہمارا المیہ بھی یہی ہے‘
ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اہم نہیں ہوتی وزیراعظم اہم ہوتا ہے‘ پارٹی اہم نہیں ہوتی لیڈر اہم ہوتا ہے‘ نیب اہم نہیں ہوتی چیئرمین نیب اہم ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ اہم نہیں ہوتی چیف جسٹس اہم ہوتے ہیں‘ جسٹس ثاقب نثار آج ریٹائر ہو گئے‘ یہ بہت ایکٹو تھے‘ سپریم کورٹ بھی بہت ایکٹو تھی‘ یہ آج چلے گئے‘ کل سے جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے‘ اب سپریم کورٹ کیسی ہو گی یہ فیصلہ جسٹس کھوسہ کریں گے اور یہ کیا فیصلہ کرتے ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا پھر یہ خود جانتے ہیں لیکن میری ان سے صرف اتنی درخواست ہے ملک میں اس وقت 19 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں‘ جسٹس ثاقب نثار تشریف لائے تھے تو (سپریم) کورٹ میں 32 ہزارمقدمات پینڈنگ تھے‘ یہ آج جا رہے ہیں تو یہ تعداد40 ہزارہو چکی ہے گویا 8 ہزارمقدمات کا اضافہ ہوگیا آپ اور کچھ کریں یا نہ کریں لیکن کم از کم آپ کو پاکستان کا پہلا ایسا چیف جسٹس ضرور ہونا چاہیے جو جب ریٹائر ہو تو سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر سماعت نہ ہو‘ دوسرا آپ اگر ادارے کو شخصیت سے بڑا بنادیں گے تو پوری قوم دہائیوں تک آپ کو یاد کرتی رہے گی ورنہ دوسری صورت میں آپ بھی ریٹائر ہو کر گم نامی میں گم ہو جائیں گے‘ ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں، کیا واقعی عمران خان پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے اورایسا واقعہ کیوں پیش آئے گا اور چیف جسٹس کی تبدیلی سے سپریم کورٹ کی فلاسفی میں کیا فرق آئے گا‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے ہمارے ساتھ رہیے گا۔