اسلام آباد(اے این این ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دوسرے ممالک سے امداد اور قرضے مفت نہیں ملتے، پاکستان اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ہے، پاکستان اب کرائے کی بندوق کے طور پر استعمال نہیں ہوگا، ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہوگی جو پاکستانی عوام کے مفاد میں ہو، ڈیڑھ لاکھ نیٹو اور 2لاکھ سے زائد افغان فوجی افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکے۔
افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں جسے آج سب نے تسلیم بھی کیا،پاکستان، افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان، امریکا اور افغان حکام کو بات چیت کی میز پر لانے کے لیے کام کرسکتا ہے تاکہ سیاسی مفاہمت ہوسکے، پاکستان اور بھارت ایٹمی ملک ہیں اور اختلافات کو جنگ سے حل کرنا خودکشی ہوگی مسئلہ کشمیر کا حل بھی سفاکیت اور فورسز کا استعمال نہیں بلکہ بات چیت ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت نے اب تک ہماری پیشکش کو مسترد کیا ہے ،پاک چین دوستی ہمارے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں ، مستقبل میں ہماری معیشت کی بحالی میں چین کا بہت اہم کردار ہوگا،اویغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں تفصیل سے علم نہیں،قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی میں ریاستی ادارے آزاد ہیں ، اربوں لوٹنے والے حکمران پہلی بار قانون کی گرفت میں آرہے ہیں جو کہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ترک چینل ’’ٹی آرٹی‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک کی مخدوش ترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے چین کی مدد ‘تازہ ہوا کا جھونکا’ ثابت ہوئی ہے۔اسی انٹرویو میں چین میں مبینہ ریاستی جبر کا شکار اویغور مسلمانوں کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں تفصیل سے علم نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ چین نے پاکستان کا مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ انھوں نے ہمارے لیے کئی مختلف شعبوں میں مدد کی ہے لیکن ان کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہے کہ میں آپ کو ان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ان کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔تقریبا 22 منٹ پر محیط یہ انٹرویو پیر کو نشر ہوا جہاں وزیر اعظم عمران خان نے مختلف موضوعات جیسے علاقائی سیاست، پڑوسی ممالک جیسے چین اور انڈیا، آسیہ بی بی کیس، پاکستان میں بدعنوانی اور امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے سوالات کے جواب دیے۔
انٹرویو کے آغاز میں جب ان سے کرپشن کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں ہونے والی بدعنوانی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے نہ صرف عوام کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ادارے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب ریاستی ادارے ان سیاسی مافیا کے دبا سے آزاد ہو کر کام کر رہے ہیں اور یہ ادارے کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث کسی بھی فرد کے بھی خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔
انڈیا کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن وہ اس پیشکش کو کئی بار مسترد کر چکا ہے جس کی وجہ بھارت میں 2019 میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کو پیشکش کی کہ آپ ایک قدم بڑھیں، ہم دو قدم بڑھائیں گے لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن مہم چلانے کے لیے پاکستان مخالف جذبے کو ابھار رہے ہیں کیونکہ بھارت میں اس نعرے کو ووٹ ملتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انڈین انتخابات کے علاوہ دوسرا مسئلہ کشمیر کا ہے۔کشمیر میں انڈیا کے مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ وہ بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انھیں چھرے والی بندوقوں سے اندھا بنا رہے ہیں۔ صرف پچھلے سال انڈین افواج نے کشمیر میں پانچ سو لوگوں کا قتل کیا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ممالک جنگ تو دور، سرد جنگ کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے اور اور دونوں ملکوں کا مسائل کو جنگ سے حل کرنا خودکشی ہو گی چناچہ ان کی دونوں کی توجہ مذاکرات پر ہونی چاہیے۔
امریکہ کے بارے میں کیے جانے والے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ جب آپ دوسروں کی جانب سے دی گئی مالی مدد پر انحصار کرتے ہیں تو آپ کو اسی کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔اسی کی دہائی میں افغان جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بھی اس جنگ کا حصہ بنا جس کی وجہ سے ملک میں بد امنی پھیلی اور جنگ کے بعد ملک میں شدت پسند عناصر اور منشیات کا فروغ ہوا۔
اور اس کے بعد پھر 9/11 ہوا تو پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ان سے پیسے لے کر انھی عناصر کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا جن کا انھوں نے اسی کی دہائی میں ساتھ دیا تھا۔ لیکن اب پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا۔ اب ہم کسی سے پیسے لے کر ان کے لیے کام نہیں کریں گے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی توجہ صرف پاکستانی عوام کی بہتری ہوگی۔
حقانی نیٹ ورک سمیت افغانستان کی جانب سے لگائے جانے والے دیگر الزامات کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ نیٹو اور افغان افواج کی موجودگی میں تین سے چار ہزار افراد کیسے پورے ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں کر کے لوگوں کو بے وقوف اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور خوش قسمتی سے اب یہ بات سب کو سمجھ آرہی ہے ۔
ہم کوشش کریں گے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کی مدد سے طالبان کو مذاکرات کے لیے امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ بٹھائیں اور اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں۔مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے بارے میں کیے جانے والے سوال پر عمران خان نے کہا کہ آسیہ بی بی کا معاملہ بہت افسوسناک تھا کیونکہ جب ان کے مقدمے پر جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا تو تو صرف ایک گروپ کو اس پر اختلاف تھا۔اگر معاشرے میں ایسے عناصر ہوں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہ کریں تو یہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ ہم نے پہلے ان سے بات چیت کے ذریعے کوشش کی لیکن جب وہ نہ مانے تو پھر ریاست کو ان کے خلاف قدم اٹھانا پڑا۔