ایران کا مشہور بادشاہ دارا سردیوں کی ایک یخ رات کو اپنے محل واپس آیا‘ وہ گیٹ پر اترا تو اس نے دیکھا محل کے ایک گارڈ نے پھٹی ہوئی یونیفارم پہن رکھی ہے‘ اس کے جوتوں میں بھی سوراخ ہیں‘ بادشاہ نے پوچھا ’’کیا تمہیں سردی نہیں لگتی‘‘ گارڈ نے جواب دیا ’’حضور بہت لگتی ہے لیکن کیا کروں میرے پاس گرم وردی نہیں ہے‘‘ بادشاہ کو اس پر ترس آگیا اور اس سے وعدہ کیا ’’میں اندر جا کر تمہارے لئے گرم وردی بھجواتا ہوں‘‘ گارڈ خوش ہو گیا‘ بادشاہ اندر گیا اورکسی کام میں الجھ گیا‘
اپنا وعدہ بھول گیا‘ وہ اگلی صبح باہر نکلا تو اس نے دیکھا‘ محل کا دربان سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا ہے‘ بادشاہ نے لاش سیدھی کی تو دربان کے نیچے کوئلے سے لکھا تھا ’’بادشاہ سلامت میں کئی برسوں سے ۔۔اسی پھٹی پرانی وردی میں آپ کے محل کی دربانی کر رہا تھا‘ مجھے کچھ نہیں ہوا لیکن کل رات آپ کے گرم ۔۔لباس کے وعدے نے میری جان لے لی‘‘۔ یہ کہانی وزیراعظم عمران خان اور مشیر برائے تجارت‘ ٹیکسٹائل و صنعتی پیداوارعبدالرزاق داؤد کیلئے تھی‘آپ پوری زندگی کنفلکٹ آف انٹرسٹ کا مقدمہ لڑتے رہے لیکن آپ کی حکومت آئی تو آپ نے خود داؤد صاحب کی کمپنی ڈیسکون کو مہمند ڈیم کا 309 ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا‘ آپ یاد رکھیں لوگ مشکلات اور مسائل سے نہیں مرتے امید ٹوٹنے پر مرتے ہیں اور آپ لوگوں کے ساتھ یہ کر رہے ہیں‘ یہ لوگ دارا کے گارڈ کی طرح ہر قسم کے حکمرانوں اور ہر قسم کے حالات میں زندہ رہے۔ انہیں کچھ نہیں ہوا لیکن آپ انہیں بادشاہ کی طرح گرم وردی کا لارا دے کر وہ سب کچھ کر رہے ہیں جوآصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے بھی نہیں کیا تھا لہٰذا لوگ آج بوڑھے اور کمزور گارڈ کی طرح سسک رہے ہیں‘ ان کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں بہرحال ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود 172 لوگوں کے نام ای سی ایل سے نہیں نکالے‘ حکومت نے یوٹرن لینے سے انکار کر دیا چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور سی ایم سندھ کا نام آج بھی ای سی ایل پر ہے‘ آج کے فیصلے سے وفاق اور سندھ حکومت کے تعلقات پر کیا فرق پڑے گا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔