آج سال کا آخری دن ہے‘ تقریباً دو گھنٹے بعد 2019ء شروع ہو جائے گا‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا اور جاپان سمیت ساؤتھ پیسفک کے ممالک میں نیا سال شروع ہو چکا ہے‘ وقت آہستہ آہستہ مشرق سے مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے‘ پوری دنیا اس وقت خوش ہے‘ یہ دنیا ڈھول ڈھمکوں‘ برقی قمقموں اور آتش بازی کے ساتھ ناچ گا کر نئے سال کا استقبال کر رہی ہے لیکن ہم آج بھی گرا دیں گے‘ توڑ دیں گے‘ تباہ کر دیں گے‘
اس قسم کے نعروں کے ساتھ پچھلے سال کو رخصت کر رہے ہیں اور اگلے سال کا استقبال کر رہے ہیں‘ کم از کم آج کے دن تو یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، حکومت آصف علی زرداری کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد جذباتی ہو گئی تھی اور اس نے نہ صرف جے آئی ٹی میں آنے والے 172 لوگوں کا نام ای اسی ایل پر ڈال دیا بلکہ اس نے سندھ میں گورنر راج لگانے اور پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک بنانے کیلئے بھی کمر کس لی‘ آج کی رات سندھ میں بہت کچھ ہو جانا تھا لیکن چیف جسٹس نے بازی پلٹ دی‘ چیف جسٹس نے آج حکومت کو وارننگ دے دی، اگر سندھ میں گورنر راج لگا تو ہم ایک منٹ میں اڑا دیں گے، ہم صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر کسی کو سندھ حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ چیف جسٹس نے 172 لوگوں کے نام ای سی ایل پر ڈالنے پر داخلہ کے سٹیٹ منسٹر شہریار آفریدی کو عدالت میں طلب کرکے جھاڑ بھی پلائی‘ چیف جسٹس کے ان ریمارکس نے بازی پلٹ دی‘حکومت بیک فٹ پر چلی گئی جس کے ساتھ ہی گورنر راج اور فارورڈ بلاک کا خطرہ ٹل گیا تاہم وزیراعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ اپنی جگہ موجود ہے، کیا مراد علی شاہ کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘ اگر ہاں تو پھر صرف ان کا استعفیٰ کیوں؟ نیب کے شکنجے میں آنے والے باقی لوگ استعفیٰ کیوں نہ دیں؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور کیا فارورڈ بلاک کا خطرہ واقعی ٹل گیا ہے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔