اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی سکینڈل اور جعلی اکاونٹس کے مرکزی کردار نے یہ اعتراف کر کے بم گرادیا ہے کہ وہ اس سارے گھنائونے کھیل کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ اپنے اعترافی بیان میں اسلم مسعود جو کہ اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر ہیں، نے انکشاف کیا کہ وہ مجید فیملی کی جانب سے کام کر رہے تھے ۔ درجنوں دیگر گروپوں کے ساتھ مشکوک کاروبار کی وجہ سے اس وقت جے آئی ٹی کی تحقیقات کی زد میں ہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق تفتیش کاروں کےسوال کے جواب میں اسلم مسعود نے بتایا کہ اس نے اومنی گروپ کے تمام انتظامی اور مالیاتی امور کی نگرانی کی اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر تک سب اس کی ذمہ داری تھی۔ جب ان سے مشکوک کاروبار کیلئے جعلی/بےنامی اکائونٹ کھولنے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایکویٹی کی گردش، شکر/الکوحل کی فروخت سے حاصل شدہ پیسوں کی گردش، زمین کے پیسوں کی گردش، بھتہ وغیرہ۔ جعلی اکاونٹس کیلئے احسان صادق کی سربراہی میں بنائی گئی جے آئی ٹی نے اس ماہ کے اوائل میں ملزم اسلم مسعود کیلئے انٹرپول کو ایک سوالنامہ سعودی عرب ارسال کیا تھا۔ اس سال ستمبر میں پاکستان کی جانب سے درخواست دائر کرنے کے بعد اسلم مسعود کو 23اکتوبر کو جدہ میں انٹرنیشنل پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وہ ان دنوں جدہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ زریعے نے اس نمائندے سے گفتگو میں تصدیق کی کہ پاکستان نے انٹرپول سے سرکاری طور پر اسلم مسعود کو ملک بھیجنے کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ جعلی اکاونٹس کی تحقیقات میں مطلوب ہیں۔تاہم اس بارے میں جب پیپلزپارٹی کے حلقے سے بات کی گئی تو کوئی جواب نہیں ملا، دوسرے نے بھی منع کردیا، پھر ایک اور سے بات کی گئی تو اس نے کہا کہ سعودی عرب میں بیٹھا یہ شخص جوابات دے رہا ہے اصل حقائق تو عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے دیئے گئے بیان سے سامنے آئیں گے جب باقاعدہ ٹرائل ہوگا تو پھر اس کی کوئی قانونی حیثیت ہوگی۔
یہ سراسر پروپیگنڈہ، بکواس، جھوٹا اور پارٹی کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایف آئی اے کے ذریعے نے مزید بتایا کہ اسلم مسعود چونکہ برطانوی شہری ہیں لہذا یہ تاحال واضح نہیں کہ وہ کب پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے تاہم ان کا اعترافی بیان بم سے کم ثابت نہ ہوگا۔ اپنے اعترافی بیان میں اسلم مسعود نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہوں نے 1992میں براہ راست انور مجید کے ماتحت کام شروع کیا، اس سے قبل وہ الائیڈ ٹریکٹرز سے وابستہ تھے جو انورمجید کے ماتحت نہیں۔
اومنی گروپ 96-1995میں ابھرا جبکہ مجید گروپ میں شمولیت سے قبل انہوں نے اپنا کیرئیر لاہور میں 1978میں اشرف گروپ آف کمپنیز کے ساتھ شروع کیا۔ اسلم مسعود نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ڈائریکٹر اورینٹ آٹومیٹو، سی ای او لال شوگر ملز، روبی کون ڈیولپرز اینڈ رائزنگ اسٹار (ٹھٹہ شوگر ملز) کے ڈائریکٹر اور 50فیصد کے شیئر ہولڈرکی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ اورینٹ آٹومیٹو، روبی کون ڈیولپرز، اومنی پولیمر پیکجز، نوڈیرو شوگر ملز، اگرو فارمز ٹھٹھہ اور سدرن ایگرو فارمز کے دستخط کنندہ تھے۔
تفتیش کاروں کےسوال پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انور مجید کی ہدایت پر انہوں نے مذکورہ کمپنیوں کے چیک جاری کئے اور 2015-2012کے درمیان جعلی اکاونٹس کھولنے کیلئے دستخط کئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 17ملین روپے کے ذریعے ایگرو فارمز ٹھٹہ اور دیگر کمپنیوں کی ایکویٹی چھپائی گئی۔ انہوں نے سمٹ بینک کے سربراہ حسین لوائی کو بھی جاننے کا اعتراف کیا کیونکہ انکے مجید گروپ سے کاروباری تعلقات تھے۔
اسلم مسعود نے ملک ریاض کے داماد زین ملک کو بھی جاننے کا اعتراف کیا کیونکہ زین ان کمپنیوں کے نام بتاتے تھے جن کو چیک جاری ہونا تھے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ ندیم اقبال انتظامی منیجر تھے تاہم انہیں سی ای او خواجہ سلمان یونس نے 15/2014میں برطرف کردیا تھا۔ ذیشان وارثی اب شوگر ڈویژن/فنانس کے انچارج ہیں۔ اسلم مسعود نے انکشاف کیا کہ ندیم اقبال کو سلمان یونس اور اے جی مجید کی ہدایات پر میسرز اسکائی پاک ہولڈنگ کا ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔
کمپنی میسرز رائزنگ اسٹار پرائیوٹ لمیٹیڈ کے قیام کے بارے میں انہوں نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ مذکورہ کمپنی خواجہ سلمان یونس اور اے جی مجید کی ہدایت پر قائم کی گئی تھی اور اس میں محمد عارف خان کو ظاہر کیا گیا تھا۔ دیگر کمپنیوں کے بارے میں اسلم مسعود نے بتایا کہ ڈائمنڈ بلڈرز نے سمٹ بینک کو درخواست دی کہ اے ون انٹرنیشنل، لکی انٹرنیشنل، اقبال میٹلز، گیٹ وے آئرن اسٹیل، ڈریم ٹریڈنگ اینڈ اوشن انٹرپرائزکو ادائیگیاں کی جائیں۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ریجنٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ نے سمٹ بینک سے خط و کتابت کی اور ہدایت کی کہ جی ٹو بلڈنگ کی تعمیر کیلئے رقم جاری کی جائے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سید فیصل حسین شاہ اور شبنم بھٹو کو جانتے ہیں تو اپنے بیان میں اسلم مسعود کا کہنا تھا کہ جی ٹو کا پلاٹ شبنم بھٹو/صنم بھٹو کے نام پر رجسٹرڈ تھا جسے بعد ازاں سید فیصل حسین شاہ کے نام پر منتقل کیا گیا، اس کے بعد مصطفیٰ مجید اور آخر میں سمٹ بینک کے نام منتقل کیا گیا۔ ایک اور سوال پر اسلم مسعود نے بتایا کہ کوئی کمپنی محمد اشرف کے نام پر ہے جو یونس قدوائی کا آدمی ہے۔