اسلام آباد(وائس آف ایشیا) العزیزیہ ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے معاشرے میں روز بروز بڑھتی بدعنوانی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور اب اس کے خلاف سخت کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق العزیزیہ یا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو
مجرم قرار دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے کہ بدعنوانی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور گزشتہ 2 دہائی میں یہ اپنے عروج تک پہنچ گئی ۔فیصلے میں کہا گیا کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سخت کارروائی کی جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے ، فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے جج نے اسے قومی احتساب آرڈیننس برائے سال 1999 کے تحت قرار دیا۔تاہم کچھ قانونی ماہرین نے اسے بہتر قرار نہیں دیا، اس ضمن میں ایک وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اسے غیر متعلق ظاہر کیا اور کہا کہ یہ ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کہ دونوں فریقین کے دلائل سننے اور شواہد کا جائزہ لے کر معاملے کا فیصلہ کرنے کے بجائے اس طرح کی وضاحتیں پیش کرے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے معاملات کا از خود نوٹس لیے جانے پر کہا جاتا ہے کہ ان معاملات میں مداخلت ضروری تھی جس کے لیے انہوں نے پانی کے معاملے پر چیف جسٹس کے لیے گئے نوٹس کی مثال پیش کی کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ تھا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق تفصیلی فیصلے میں احتساب عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ ایک جانب بدعنوانی کے ذریعے دولت کے انبار لگائے جارہے ہیں دوسری جانب ایک طبقہ خطِ غربت سے اس قدر نیچے ہے کہ مٹی چاٹنے پر مجبور ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے میں عدم مساوات کس قدر گہرائی سے جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حکمران جن کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی باگ دوڑ ہوتی ہے وہ بھی اپنا کام بہتر طورپر کرنے میں ناکام رہے اور بدعنوانی کے خاتمے کے بجائے ناجائز دولت کے حصول میں مصروف رہے۔