لاہور( این این آئی) وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی ساری باتیں مان سکتے ہیں لیکن احتساب سے پیچھے ہٹنے کی بات نہیں مانی جا سکتی ،اگر ہم نے کرپشن پر ہاتھ اور کرپشن کرنے والوں کو جیلوں میں نہ ڈالا تو ملک کا مستقبل خطرے میں ہے ،پاکستان کو دوست ممالک سے بغیر کسی شرائط کے امداد ملی ہے اور ہماری کسی سے کوئی کمٹمنٹ نہیں کہ ہم کسی کی جنگ میں اپنی فوج استعمال کرنے دیں گے ،
پاکستان کا کردار امن کیلئے ثالث کا بن گیا ہے ، ہماری کوشش ہے کہ ایران اور سعودی کے تعلقات بھی بہتر کریں ،جب کوئی ملک قرضہ لیتا ہے تو اس کی خود مختاری داؤ پر لگتی ہے اور وہ عزت کھو بیٹھتا ہے ، میں پاکستان کو ایک خود مختار ملک دیکھنا چاہتا ہوں ،جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوئی یہی وجہ ہے کہ ملک کے مخالف اس کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،جیل میں بیٹھے شخص کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے سے پوری دنیا میں ہمارا مذاق اڑ رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب حکومت کی 100 روزہ کارکردگی سے متعلق ایوان اقبال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی خطاب کیا جبکہ وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے 100روز کی کارکردگی اور منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ۔اس موقع پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین ، صوبائی وزراء ، اراکین اسمبلی اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی موجود تھیں۔وزیر اعظم عمران خان نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی تقریب سے بھی خطاب کیا ۔ عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ پرانی حکومتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ کرنا ضروری ہیں کیونکہ جب تک آپ یہ نہیں بتائیں گے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے تو آپ کس سے اپنا موازنہ کریں گے۔
میری زندگی میں مشرقی پاکستان جدا ہوا۔ بنگلہ دیش کو بنے ہوئے 18سال گزر چکے تھے اور وہاں کے لوگوں میں پاکستان کے خلاف غصہ تھا لیکن جب ہم نے ڈھاکا میں بھارت کے خلاف میچ جیتا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں لاہور میں کھڑا ہوں، ڈھاکہ میں اسٹیڈیم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔انصاف نہ ملنا انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور لوگ ملک سے علیحدگی کی مہم چلاتے ہیں ، مشرقی پاکستان کے لوگ بھی مسلسل یہ کہتے رہے کہ ہمیں انصاف نہیں مل رہا لیکن انہیں نہیں سنا گیا اور ایک حصہ الگ ہوگیا
لہٰذاہمیں ان غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب کے حصے کا 250ارب وہاں خرچ نہیں ہوا جس سے وہاں احساس محرومی پیدا ہوا اسی طرح بلوچستان میں یہ ہوا ،جب اس طرح کے حالات ہوں تو ملک کے مخالف اسی کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آدھے پنجاب کا بجٹ لاہور پر خرچ کر دیا گیا جس سے لاہور تو بن گیا لیکن باقی علاقوں کے لوگ مقامی سطح پر ترقی نہ ہونے کی وجہ سے لاہور آنا شروع ہو گئے اور اس پر بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا اور مسائل پیدا ہوئے ۔ آج ایسے مسائل ہیں جو لاہور میں رہنے والوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ،
یہ شہر دنیا میں آلودگی والا شہر بن گیا ہے جس سے بچوں اور بڑھوں کی زندگیوں کو خطرات لا حق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کوبنایا تو بڑی عجیب تنقید ہوئی کہ غلط آدمی کو اس عہدے پر بٹھا دیا ۔ کسی بھی سربراہ میں بہت سی خوبیاں ہوں لیکن اگر و ہ ایماندار نہ ہو تو باقی خوبیوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔ مجھے آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ عثمان بزدار کمیشن لے رہا ہے ، فیکٹریاں بنا رہا ہے ،منی لانڈرنگ کر رہا ہے ، لندن اور پیرس میں فلیٹس بنا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ لوگ حکمرانی پاکستان میں کرتے ہیں لیکن جائیدادیں پاکستان سے باہر بناتے ہیں، چھٹیاں باہر گزار تے ہیں ،
علاج بیرون ممالک سے کراتے ہیں ، عیدں باہر مناتے ہیں، بچے باہر پڑھتے ہیں اور ان کے کاروبار باہر ہیں لیکن حکمران پاکستان پر کرنی ہے ، ایسا لیڈر کیسے پاکستان سے وفادار ہو سکتا ہے ۔ باہر جائیدادیں بنانے او رکاروبار کرنے والے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت میں پاکستان خطے میں سب سے ابھرتا ہوا ملک تھا ۔ ایوب خان امریکہ گئے تو امریکی صدر انہیں ائیر پورٹ پر ملنے آیا ، برطانیہ میں شاندار استقبال ہوا ۔ 21کروڑ آبادی والے پاکستان کی ایکسپورٹ صرف 24ارب ڈالر ہیں، 50لاکھ آباد ی والے سنگا پور کی ایکسپورٹ 330ارب ڈالر جبکہ6کروڑ آبادی والے ملک ملائیشیاء کی ایکسپورٹ 220ارب ڈالر ہیں ۔
ہم کیوں پیچھے رہ گئے اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمارے حکمرانوں کے مفاد یہاں نہیں تھے ۔ حکمرانوں نے ایسے منصوبوں کیلئے قرضے لئے جو نقصان کر رہے تھے ، کیوں ان کو پاکستان کی فکر نہیں تھی ۔ جب میرا سب کچھ باہر ہوگا تو ملک مقروض ہوتا جائے مجھے کیا فکر ہو گی ۔ سردار عثمان بزدار کا جینا مرنا پاکستان میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاق اور پنجاب میں تجاوزات کے خلاف مہم میں اربوں روپے کی سرکاری زمینیں واگزار کرائی گئی ہیں اور یہ عوام کی دولت اوراثاثہ ہے ۔جب کسی ملک میں کرپشن ہوتی ہے تو اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے ، کرپشن کے ذریعے جو پیسہ چوری ہوتا ہے وہ حکومت کا نہیں بلکہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے ۔ جو بھی ملک ترقی یافتہ ہیں وہاں کرپشن کو پھڑکنے نہیں دیا جاتا ،
کرپشن معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے ۔چین میں پانچ سال پہلے 400وزیروں جبکہ کئی ہزار آفیشلز کو کرپشن پر پکڑا گیا ۔پاکستان میں اچھا وقت آرہا ہے اور انشا اللہ یہاں بڑی سرمایہ کاری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ یہاں ہم کرپشن کی بات کرتے ہیں تو عجیب ڈرامہ ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے ۔ ہماری حکومت کے دور میں نیب کا ایک بھی کیس نہیں بنایا گیا ،یہ سارے کیسز ایک سال پہلے کے ہیں،جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ 2015ء میں سامنے آیا تھا لیکن میثاق جمہوریت کے ذریعے مک مکا کر لیا گیا ، دوسری بار 2017ء میں جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ سامنے آیا لیکن پھر کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔ نگران حکومت کے دور میں چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا ، ہم نے یہ کیا ہم نے کارروائی روکی نہیں ۔
پہلے شور مچا کہ شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف بناؤ ، پھر کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بناؤ ، جو شخص نیب کی جیل میں ہے اسے پی اے سی کی چیئرمین شپ پر بٹھانے لگے ہیں ، دنیا میں ہمارا مذاق اڑے گا بلکہ اڑ رہا ہے کہ احتساب کی بات ہو رہی ہے اوروہ چیئرمین ہے جو جیل میں ہے ۔ ہم نے کہا کہ کسی اور کو چیئرمین بنا دو لیکن اپوزیشن اپنی بات پرڈٹی رہی ۔ سابقہ دور میں اسمبلی سے قانون پاس کرایا گیا کہ کرپٹ اور ایک مجرم شخص پارٹی کی سربراہی کر سکتا ہے ایسے میں ہماری جمہوریت کی کیا ساکھ رہ گئی ہے ۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ مقدس ہے اور دوسری طرف جو کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے ۔ میں نے اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کو کہا ہے کہ اپوزیشن جو کہے مانتے جاؤ ،
انہوں نے کہا کہ سعد رفیق کو پارلیمنٹ میں لے آؤ ہم نے کہا آنے دو ، دھاندلی پر کمیشن بناؤ ہم نے بنا دیا لیکن ہم ایک چیز نہیں مان سکتے کہ ہم احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ یہ ملک کی سالمیت، ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے ، اگر ہم نے کرپشن کرنے والوں پر ہاتھ اور انہیں جیلوں میں نہ ڈالا تو ملک کا مستقبل خطرے میں ہے ۔ ہم ساری باتیں مانیں گے لیکن اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ پہلے یہ کرپشن کرنے کے لئے حکومت میں آتے ہیں اور پھر اسے بچانے کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کرتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سول پروسیجر میں تبدیلی کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں اور اس کے تحت ایک سال میں سول کیسز کا فیصلہ کرنا ہے ۔ ہم وفاق اور پنجاب میں اس پر قانون سازی کرنے جارہے ہیں ۔
پولیس میں اصلاحات لے کر آرہے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے ، پنجاب میں ہم اس کے لئے پورا زور لگانا ہے ۔ہم زرعی شعبے میں اصلاحات لے کر آرہے ہیں ہم یہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کسان کس طرح اپنی پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں اس کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر منتقل ہونے بارے منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ہم نے چھوٹے کسان کو اوپر اٹھانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو اقلیتوں کیلئے وہ ملک بنانا ہے جہاں پر انہیں برابری کے حقوق ملیں ۔ ہم نے نریندر مودی کو بتانا ہے کہ ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسے رہتے ہیں اور آپ اپنی اقلیتوں کو کیسے رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبائی کابینہ کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وزارت وزیر کو نہیں بناتی بلکہ وزیر اپنی محنت سے وزارت کو بناتاہے ۔
آپ صحیح طرح اور دیانتداری سے کام کریں ۔ مراد سعید کو ہم نے وزیر مملکت بنایا لیکن اس نے اتنا زبردست کام کیا کہ ہم نے انہیں وفاقی وزیر بنا دیا ۔ میں آپ کی کارکردگی دیکھ رہا ہوں ، آپ نے اپنے اخراجات کم کرنے ہیں ، حکومت میں جو پیسے خرچ ہوتے ہیں وہ عوام کا پیسہ ہے ، ہمارے 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے یا اس پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی جماعت کی رکن نے کہا کہ اگر عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہنا تو اگلے وزیر اعظم نے تو اس میں رہنا ہے میں بتانا چا ہتاہوں آگے بہت دور تک آپ کا وزیر قاعظم نہیں آنے والا ۔انہوں نے وزیر خزانہ کو کہا کہ آپ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ یہاں خادم اعلیٰ کے کیا اخراجات تھے ۔ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں کیونکہ مجھے فکر ہے کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پناہ گاہوں کے قیا م کے لئے اقدامات اٹھائے تو اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم پناہ گاہیں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس ملک میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن ہم نے ظلم کیا کہ ہم نے اپنے ملک کو صحیح گورننس نہیں دی ۔ آئل ڈرنگ کمپنی ایگزون 27سال بعد پاکستان آئی ہے اور اس کی رپورٹ مارچ یا اپریل میں آنی ہے کہ اگر سمندر میں گیس نکل آئی تو پاکستان کی عوام کیلئے پچاس سال کے لئے ذخائر کافی ہوں گے اور ہم یہ گیس فروخت بھی کر سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی قوم کے لیڈر کا کام نہیں کہ وہ قرض اور مدد مانگتا پھرے ۔ جب آپ کسی سے کسی طرح کی امداد یا قرض لیتے ہیں تو اپنی سلامتی خودمختاری کھو بیٹھتے ہیں، جو گھر قر ض لیتا رہتا ہے وہ اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے ۔ میں پاکستان کو ایک خود مختار ملک دیکھنا چاہتا ہوں ۔
انہوں نے کہا کہ جب ایوب خان برطانیہ اور امریکہ گئے تو اس وقت ایسے حالات نہیں تھے جو آج ہیں ۔ ہم نے ایشین ٹائیگر بنناتھا لیکن کوئی اور ملک ایشین ٹائیگر بن گئے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنلائزیشن درست اقدام نہیں تھا جس میں 22فیملیوں کو ہدف بنایا گیا ، یہ نہیں کہ سرمایہ کار کو برا کہہ دیں ۔ یہاں کچھ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کا بھی مائنڈ سیٹ ہے کہ پیسہ بنا رہے ہیں اور اسے بری نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اگر کوئی جائز طریقے سے بناتا ہے اس سے ملک کا فائدہ ہے ، اس سے ملک میں روزگار کے مواقع ملتے ہیں ،ٹیکسز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ایک پالیسی اور سوچ رکھتی ہے ہم نے لوگوں کو مواقع اور ایسا ماحول دینا ہے کہ وہ پیسہ بنائیں اور پھر سرمایہ کاری کریں ۔ مہاتیر محمد نے بتایا کہ جب انہیں 18سال پہلے موقع ملا تو انہوں نے لوگوں کو پیسہ بنانے کا موقع دیا ۔
دبئی کے حکمران شیخ محمد نے بتایا کہ ان کے والد نے ایک بات کہی تھی کہ لوگوں کو پیسہ بنانے دو اس سے اور لوگ آتے ہیں ۔ جب منافع بنتا ہے تو لوگ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ہم ایسے مواقع اور ماحول دیں گے کہ سرمایہ کاروں کیلئے آسانیاں ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جب پیداوار ی لاگت زیادہ ہو گی تو ہمارے ایکسپورٹرز بیرون ممالک مقابلہ نہیں کر سکیں گے ہم ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے ۔ جب چھوٹے تاجر کو ریبیٹ اور ری فنڈ نہیں کریں گے تو وہ بینک کرپٹ ہو جائے گا اور ہماری انڈسٹری کے بند ہونے کی بھی یہی وجہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مشکلات ہیں لیکن چار ماہ کا جو تجربہ ہوا ہے کہ اگر ہم نے گورننس کے سسٹم کو ٹھیک کرلیا تو یہ ملک ٹیک آف کر جائے گا ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث دوست ممالک سے رابطہ کیا،
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کسی شرط کے بغیر ہماری مدد کی ہے۔اس سے پہلے جنگیں لڑتے رہے ہیں،ابھی تک جو امداد آ رہی ہے یا جو آنی ہے پاکستان کی کسی کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں کہ ہم کسی کی جنگ میں اپنی فوج استعمال کرنے دیں گے۔ ہم امن کے داعی ہیں اور امن کے لیے جو کردار ادا کرسکے کریں گے، جہاں بھی ضرورت پڑی پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔ یمن کے اندر ، ہماری کوشش ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مشکل وقت سے نکل گئے ہیں ،ہم انڈسٹری کے لوگوں کی مدد کریں گے کیونکہ ایکسپورٹ بڑھیں گی تو روزگار بڑھے گا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارجہ کم سے کم ہوتا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ صنعت کے لیے ماحول درست کریں گے، صنعتوں کو گیس اور بجلی سستی ملے گی،اگرصنعت کوری بیٹ نہیں دیں گے تو ان کا دیوالیہ نکل جائے گا، جائز طریقے سے پیسہ بنانے سے ملک کا فائدہ ہوتا ہے،سرمایہ کاروں کی دلچسپی تب ہی بڑھے گی جب وہ پیسہ بنائیں گے۔