زبان جسم کا واحد عضو ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ آپ کی ساری ہڈیاں تڑوا سکتی ہے‘ بزرگ صدیوں سے نوجوانوں کو بتاتے آ رہے ہیں پہلے بار بار تولو اور پھر بولو اور جو انسان اپنی زبان‘ اپنے لفظوں پر قابو نہیں پا سکتا وہ دنیا میں کسی کو کنٹرول نہیں کر سکتا وغیرہ وغیرہ اور مجھے محسوس ہوتا ہے ہماری موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی اپنی زبان ہے‘ حکومت کے سو دن پورے ہو چکے ہیں‘حکومت 29 نومبر کو ان سو دنوں کی تکمیل پر کنونشن سنٹر میں جشن منائے گی
لیکن آپ اس جشن سے پہلے ملاحظہ کیجئے حکومت نے سو دنوں کیلئے کون کون سے گول طے کئے تھے، یہ عمران خان کے اپنے وعدے ہیں‘ یہ درست ہے پچھلے سو دنوں میں سول اور ملٹری ریلیشن شپ ٹھیک رہے‘ ٹرمپ ہوں یا مودی ہوں وزیراعظم فارن پالیسی میں ایکٹو بھی رہے‘ تجاوزات کے خلاف دھڑا دھڑ آپریشن بھی ہوئے‘ سٹیزن پورٹل بھی بنا‘ کفایت شعاری بھی ہوئی اور کرپشن کے خلاف حکومت کے بیانیے میں بھی تسلسل رہا لیکن سوال یہ ہے حکومت نے مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لالیس نیس‘ بیورو کریسی میں اصلاحات اور معاشی بہتری کیلئے کیا کیا‘کیا یہ حقیقت نہیں سو دنوں میں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا‘ قرضے بھی بڑھے‘ بے روزگاری اور مس گورننس میں بھی اضافہ ہوا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار سو دنوں میں پارلیمنٹ میں کوئی قانون پاس نہیں ہوا اور پنجاب اور وفاق کی اسمبلیوں میں سٹینڈنگ کمیٹیاں تک نہیں بن سکیں چنانچہ میں آج کہنے پر مجبور ہوں عمران خان کو کسی اور شخص‘ کسی اور پارٹی کا چیلنج درپیش نہیں‘ یہ اور ان کے وعدے خود ان کیلئے چیلنج ہیں‘ یہ اپنے خود دشمن ہیں‘ آپ اگر کر نہیں سکتے تھے تو آپ نے کہا کیوں تھا اور آپ مسلسل کہہ کیوں رہے ہیں چنانچہ حکومت اگر سو دنوں میں غیر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ خود ان کی زبان اور ان کے وعدے ہیں‘ حکومت اپنی زبان کے بنے جال میں پھنستی چلی جا رہی ہے اور یہ پھنستی چلی جائے گی چنانچہ حکومت کو باہر نہیں اپنے اوپر توجہ دینی چاہیے۔حکومت کے سو دن‘ قوم نے کیا پایا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔