اسلام آباد(آ ئی این پی ) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹی ایل پی کے نومبر 2017 میں فیض آباد دھرنے کے معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی غیرموجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے،اسے دفن کر دیں،بتایا جائے پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے،
اسے قانون کے ذریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور سے؟۔ جمعہ کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کے روبرو کہا کہ اٹارنی جنرل موجود نہیں، لہذا سماعت ملتوی کر دی جائے۔جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں؟ ان کی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل لاہور میں ہیں، انہیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کیسز کے سلسلے میں وہاں آئیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس نہیں عدالت ہدایات دیتی ہے، ہم بھی تو عدالت ہیں اور یہ تاریخ بھی اٹارنی جنرل کی خواہش پر دی تھی ۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان بند ہو گیا، اس سے اہم کیس کیا ہو سکتا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا یہ مذاق نہیں ہے، اٹارنی جنرل کو تنخواہ کون دیتا ہے؟،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو عوام کے ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ جوابدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے، اسے دفن کر دیں’۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید ریمارکس دیئے کہ ‘بتایا جائے پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے، اسے قانون کے ذریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور سے؟۔