اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گزشتہ شب ڈی جی نیب سلیم شہزاد کے پانچ چینلز کو دئیے گئے انٹرویوز نے سیاسی ماحول کو ایک بار پھر گرم کر دیا ہے اور اپوزیشن اور حکومت پھر آمنے سامنے آگئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے ڈی جی نیب سلیم شہزاد کے خلاف اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کروا دی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد نے
ایک منظم پالیسی کے تحت چیئرمین نیب کے کہنے پر ٹی وی چینلز پر آکر سیاستدانوں کا میڈیا ٹرائل کیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی رہنما نوید قمر کا کہنا تھاکہ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد نے پیپلزپارٹی کے کسی رہنما کے بارے میں بات نہیں کی تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ایک منظم پالیسی کے تحت کیا گیا ہے ۔ یہ ایسے نہیں تھا کہ ڈی جی نیب کہیں سے گزر رہے تھے اور کسی صحافی نے ان سے سوال کر لیا بلکہ ڈی جی نیب نے ایک ہی رات میں چند گھنٹوں کے اندر پانچ ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دئیے ۔ اگر وہ آج آکر ن لیگ کے رہنمائوں کے بارے میں میڈیا پر بات کر رہے ہیں تو کل وہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے لوگوں کے بارے میں بھی بات کرینگے ، ایسی مثال قائم نہیں ہونی چاہئیں۔ ن لیگ کے رانا تنویر نے ڈی جی نیب کے انٹرویوز کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ قرار دیا اور اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔ رانا تنویر کا کہنا تھا کہ حکومت ’ننگی ‘ہو چکی ہے ، ان کے غیر پارلیمانی لفظ سپیکر نے حذف کروا دئیے جس پر رانا تنویر کو ساتھ بیٹھے احسن اقبال نے لفظ ’’ننگی ‘‘کے بجائے ایکسپوز کہنے کو کہا ۔ رانا تنویر کا کہنا تھا کہ اس طرح ہمارے رہنمائوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہم احتساب کیلئے تیار ہیں تاہم ان لوگوں سے
نہیں جو حکومت سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ سب کچھ انتقامی کارروائی کے تحت کروایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم اور وفاقی وزرا وہی باتیں کر چکے ہیں جو گزشتہ شب ٹی وی انٹرویوز میں اس شخص نے کی ، یہ باتیں وزیراعظم اور وفاقی وزرا تک کیسے پہنچیں؟۔اس موقع پر حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری
نے ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک استحقاق پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اسمبلی میں بیٹھا کوئی ممبر یہ کہے کہ میرا استحقاق ملک کے دیگر لوگوں سے زیادہ ہے کیونکہ میں اس ایوان کا ممبر ہوں ، میرے حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتا اور میں یہاں ہر کسی کے بارے میں بات کر سکتا ہوں۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ احتساب کا عمل جاری رہنا چاہئے ۔