ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جشن آزادی نہ منانے سے متعلق بیان کیوں دیا؟ صدارتی الیکشن سے ایک دن قبل فضل الرحمن نے معاملے کے پیچھے چھپی اصل وجہ بتادی،پیپلز پارٹی کو بھی آئینہ دکھا دیا

datetime 3  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میں صدارتی امید وار کے طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ مجھ پر اپوزیشن جماعتوں نے اعتماد کیا ہے ، مسلم لیگ ن کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام پر اعتراض کی وجہ اعتزاز احسن کے ن لیگ مخالف بیانات ہیں، جشن آزادی نہ منانے سے متعلق میرے الفاظ احتجاج کے الفاظ تھے، ہم 70 برسوں میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے عظیم الشان مقاصدحاصل نہ کر سکے ۔

نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری نظا م موجود ہے صدر مملکت اور ایوان صدر جمہوری نظام کا حصہ ہیں، ہم اسی جمہوری نظام میں جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں۔انتخابات میں حصہ لینا ہمارا جمہوری حق ہے، اس سے پہلے میں بھی ایم ایم اے کی جانب سے وزیراعظم کا امیدوار رہ چکا ہوں اپوزیشن نے مجھے اس عہدے کے لئے نامزد کیا ہے۔ پاکستان میں انتظامی معاملات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے پاس ہیں لیکن صدر مملکت کو تمام امور سے آگاہ کیا جاتا ہے۔میرے ایوان صدر جانے سے ایم ایم اے غیر فعال نہیں ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور آئین کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی اور ریاستی مذہب ہو گا آئین کے مطابق ملک میں قانون سازی اسلام کے مطابق ہو گی۔صدر مملکت وفاق کا مظہر ہوتا ہے ،صدر مملکت آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے جس جماعت کے طرز عمل سے مذہب کی کوئی چیز آشکارا نہیں ہوتی اور مذہب کے معاملے پر کوئی ترجیح سامنے نہیں آ رہی ہے ایسی صورتحال میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا میں نے کہا تھا کہ وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ہونا چاہئے اسپیکر مسلم لیگ ن سے ہونا چاہئے اور ڈپٹی اسپیکر متحدہ مجلس عمل سے ہونا چاہئے اس بات پر پیپلزپارٹی کے علاوہ سب نے اتفاق کیا پیپلزپارٹی نے کہا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن سے ہونا چاہئے جبکہ دیگر جماعتوں نے کہا کہ اسپیکر پیپلزپارٹی سے ہو گا۔

اس فیصلے کے بعد ہم سب اس بات کے پابند تھے پیپلزپارٹی کے کہنے پر وزیراعظم کے امیدوار کے لئے نام مسلم لیگ ن سے لیا گیا۔ اگر پیپلزپارٹی کے 50 ووٹ اپوزیشن کو پڑتے تو اپوزیشن حکومت بنا لیتی اور عمران خان حکومت نہ بنا سکتے ۔یہی صورتحال پنجاب میں بھی ہوتی مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنا سکتی تھی پیپلزپارٹی نے ان کا ساتھ نہیں دیا یہ وطیرہ آج کانہیں ہے 2002 کے انتخاب میں عمران خان اور دیگر جماعتیں میرے ساتھ تھیں مگر عین وقت پر پیپلزپارٹی کے 22 ارکان فارورڈ بلاک بنا کر ق لیگ میں چلے گئے اور میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے اعتزاز احسن کے بطوروزیراعظم امیدوار کی مخالفت کی اس کی وجہ اعتزاز احسن کے ن لیگ کے خلاف بیان تھے مری میں شہباز شریف کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں مسلم لیگ ن مصر تھی کہ اعتزاز احسن صدارتی امید وار نہیں ہوں گے بلکہ پیپلزپارٹی صدارتی امید وار کے لئے 3 اور نام دے اس پر پی پی پی والے مان گئے تھے بعد میں انہوں نے کہا کہ ہمارا زرداری صاحب سے رابطہ نہیں ہوا لہذا ہم بعد میں جواب دیں گے ۔

لیکن بعد ازاں پیپلزپارٹی اعتزاز احسن کے نام پر بضدہو گئی اے پی سی کے اعلامیے میں لکھا گیا تھا کہ صدارتی امیدوار کے لئے پینل کا نام دیا جائے گا مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ شہباز شریف نے صدارت کے لئے میرا نام دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہو سکتا ہے کہ میر ے نام پر اتفاق رائے ہو جائے مجھے صدارتی امیدوار کے نام کے لئے پل کا کردار اد اکرنے کا کہا گیا پیپلزپارٹی سے تمام جماعتوں کو مثبت رویے کی امید ہے میں صدارتی امید وار سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

کیونکہ مجھ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد ہے ، پیپلزپارٹی نے ایسا شخص دولہا بنایا ہے جس کو نہ تو اسی کے گھر والوں نے قبول کیا ہے اور نہ ہی سسرال والوں نے ۔اعتزاز احسن کو اپوزشن نے مسترد کر دیا ہے مسئلہ زاتی پسند یا نا پسند کا نہیں ہے اعتزاز احسن میرے ذاتی دوست ہیں ہم نے پارلیمنٹ میں ایک زمانہ اکھٹے گزارا ہے آصف زرداری کا ن لیگ سے شکوہ ہے کہ نواز شریف نے آصف زرداری اوران کی بہن کے خلا ف مقدمہ بنایا ۔ شہباز شریف نوا ز شریف کے بھائی ہیں لہذا ہم ان کو ووٹ نہیں د یں گے ۔

کسی اعلیٰ منصب تک پہنچنا منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کی گزر گاہ ہے 70 سالوں میں آزادی کے عظیم و شان مقاصد جن کا ذکر قائداعظم اور علامہ اقبال نے کیا ہے ہم آج بھی حاصل نہیں کر سکے ہماری معیشت سیاست جمہوریت بین الاقوامی دباؤ میں ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارا دفاع بھی بین الاقوامی دباؤ میں ہے بین الاقوامی ادارے قانون صادر کرتے ہیں اور یہ ہمارے ملک میں نافذاور موثر ہوتے ہیں اورہمارااپنا قانون غیر موثر ہوجاتاہے لہذا ایسی صورتحال میں ہمیں آزادی کے عظیم و الشان مقاصد اور آخری منزل تک پہنچنے کے لئے جدو جہد کے سلسلے کو زندہ رکھنا ہے میں نے جشن آزادی نہ منانے والی بات اسی پیرائے میں کہی تھی ۔دھاندلی سے قوم کا نقصان ہو اہے تو کیا قوم کہہ سکتی ہے کہ ہم آزاد ہیں ، میرے الفاظ احتجاج کے الفاظ تھے انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی اپنا امیدوار دستبر دار کرے تو ہماری کامیابی یقینی ہے ا س معاملے پر کوششیں جاری ہیں آصف زرداری نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…