لاہور( این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پانی کا مسئلہ مجرمانہ غفلت ہے ،پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے جب کچھ نہ بن پایا تو پانی کی قلت کی سازش کی گئی اور یہ غیر ملکی سازش ہے ،آنے والی نسلوں کیلئے ڈیم بنانا نا گزیر ہے اور اس کیلئے تن من دھن جو بھی لگانا پڑے وہ لگائیں گے،پاکستان کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ، یہ ملک ہمیں مفت یا تحفے میں نہیں ملا بلکہ جدوجہد کر کے ملا ہے ،
سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں ، اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کیلئے قربانیاں دینا پڑیں گی اورصرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچنا پڑے گا ،کسی جج کواپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو وہ اگلے دن اس کامداوا کرے، ہمیں بطورایک ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، عدالتی نظام میں تبدیلی بتدریج آتی ہے،میں نے بہت سے شعبوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے لیکن شایدمیں وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا تھا، بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں ،جج صاحبان کوبھی اپنے اندرفوری انصاف فراہم کرنے کا جذبہ پیداکرنا ہو گا،جب تک قانون پرعملداری کا جذبہ نہیں ہوگابہتری نہیں لائی جا سکے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد یاور علی ،سپریم کورٹ اورلاہور ہائیکورٹ کے فاضل ججز صاحبان سمیت لاء افسران بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ لاہو رہائیکورٹ نے جو اقدام اٹھایا ہے اس لحاظ سے ایک انتہائی اہم دن ہے، اسی طرح تبدیلیاں اور بہتری آتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجود بہت سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے،آج کے دور میں ہم امریکہ میں ویڈیو پر بات کر سکتے ہیں لیکن لاکھوں کی پراپرٹی پٹواری کے زبانی انتقال پر محیط ہے ،آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک پٹواری کی محتاجی برقرارہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ایک سماعت کے دوران نمبر دار سے دو سوال پوچھے لیکن اس نے کہا مجھے نہیں پتہ ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق خود کو تیار نہیں کرتے تیز ترین انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور نہ ہم اپنے اہداف حاصل کر پائیں گے۔ ہم اس وقت تک ڈلیور نہیں پائیں گے جب تک ججز میں جذبہ پیدا نہیں ہوگا ۔ جب تک کام کرنے کی لگن ، جذبہ اور وژن نہیں ہوگا ، رول آف لاء اپلائی کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا تمام ترامیم بے سود ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اپنے اندر جذبہ پیدا کیا جائے ہم اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کریں اسے اپنے لئے مغفرت او رنجات کا ذریعہ بنائیں ، اسے تکریم ،عزت اور رزق کا ذریعہ سمجھیں ، پھر ہمیں کیوں پھل نہیں ملے گا ۔ ہمیں قسم دینی ہو گی خود سے وعدہ کرنا ہوگا ، یہ کوئی معمولی نوکری نہیں ہے ، ہمیں تربیت حاصل کرنا ہو گی، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بس سول جج کا امتحان پاس کر لیا تو کافی ہے ۔ میں چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوں لیکن میں آج بھی پیاسا ہوں ، مجھے پورا قانون نہیں آتا میں آج بھی کسی اکیڈمی میں کسی استاد سے سیکھنا چاہتا ہوں ،
میرے اندر تشنگی ہے کہ میں اپنی سیکھنے کی پیاس بجھا سکو ں ۔ آپ قانون کو سیکھیں تبھی آپ صحیح انصاف کر سکیں گے ۔ آپ قانون کو اپلائی کریں میں ہوں گا یا نہیں لیکن یہ سسٹم ٹھیک ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں آپ کو غلطی نظر آئے اسے بتائیں اگر یہ آج حل نہیں ہوگی تو کل بڑی مشکل ہو گی ۔ہماری سپریم کورٹ کی خوبصورتی ہے کہ اگر کہیں غلطی ہے تو ہم اس کی درستگی کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں۔
عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات موجودہیں،جج صاحبان کوبھی اپنے اندرفوری انصاف فراہم کرنے کا جذبہ پیداکرنا ہو گا،جب تک قانون پرعملداری کا جذبہ نہیں ہوگا،بہتری نہیں لائی جا سکے گی۔کسی بھی نظام میں تبدیلی لانے کے لئے کشت کاٹنا پڑتاہے۔ انہوں نے کہا کہ میں باپ ، بڑا بھائی ہونے اور چیف جسٹس کی حیثیت سے کہوں گا کہ آنے والے دنوں میں پانی کی انتہائی قلت ہونی ہے اور یہ ہماری بقاء کا معاملہ ہے ، پانی کا مسئلہ مجرمانہ غفلت ہے ۔ میں نے جتنی بھی میٹنگز لی ہیں اس میں واضح ہوا ہے کہ یہ ملکی نہیں غیر ملکی سازش ہے ۔
یہ سوچا گیا کہ پاکستان کو ویسے تو کمزور نہیں کیا جا سکتا اسے پانی کے حوالے سے کمزور کرو تاکہ کرہ ارض پر اس کی بقاء ہی نہ رہے ۔ ڈیم بنانا نا گزیر ہے اس کیلئے ہمیں اپنا تن من دھن جو بھی لگانا پڑے لگائیں گے۔ یہ آپ کے بچوں کا آپ پر قرض ہے ۔ یہاں لوگ اپنے بچوں کے لئے جائیدادیں چھوڑ کر جاتے ہیں ، آج جو بچہ پیدا ہو رہا ہے ہم اسے ایک لاکھ17ہزار روپے کا مقروض چھوڑ کر جارہے ہیں کیا بڑے ایسے فریضے نبھاتے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے بہت بہتر پاکستان چھوڑا تھا ،
اس کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی شاید بہت اچھا پاکستان چھوڑا ۔پاکستان کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں ، یہ ملک ہمیں مفت میں یا تحفے میں نہیں ملا بلکہ جدوجہد کر کے ملا ہے ۔ یہ ملک ہماری ماں ہے جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے ۔ ہم اپنی ماں کی کیا خدمت کر رہے ہیں اور اب تک کیا کی ہے ؟، کرپشن ، ایمانداری نہ کرنا ،ہم غور کر کے دیکھ لیں ، اپنے گریبانوں میں جھانکیں ۔ صر ف اپنے مقاصد ہیں اپنی ذات ہے ، پراڈو ،ہر سال نئی گاڑی ، بینک اکاؤنٹ چیک کرتے ہیں اس میں کتنے پیسے آئے ہیں ۔
ہم اپنی قوم اور آنے والی نسل کے لئے کیا چھوڑ کر جارہے ہیں ، تاریخ کیا لکھے گی۔ بہت سے لوگوں نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے تاکہ ان کی آنے والی نسلوں کو خوراک مل سکے ۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کیلئے قربانیاں دینا پڑیں گی ۔ ہمیں آبادی کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی تاکہ انہیں خوراک مل سکے ۔ سب کو ملک ، پاکستان اور اپنی ماں کے لئے اپنے اپنے فرائض سر انجام دینا ہوں گے۔پاکستان ہے تو ہم ہیں اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ،صرف پاکستانی بن کر سوچیں پھر الحمد اللہ سارے مسئلے ٹھیک ہو جائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں نے بہت سے شعبوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی لیکن شاید میں وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو کرنا چاہتا تھا، بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں، آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہم پٹواری کے محتاج ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس کو انصاف نہ ملے،میرے پاس بلا جھجھک آ سکتا ہے،کسی جج کواپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو وہ اگلے دن اس کامداوا کرے، ہمیں بطورایک ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے، ہمیں ایک جگہ جم کرنہیں کھڑے رہنا،آگے بڑھنا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یاور علی نے تقریب سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی قانونی ذمہ داری سے مکمل طو ر پر آگاہ ہیں ۔ قانون کے نفاذ میں تبدیلی وقت کا تقاضہ ہے۔ رولز میں تبدیلی سے انصاف کے تقا ضہ پورے ہوئے۔ ان تبدیلوں سے سائلین کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی۔