اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کے میزبان نے تجزیہ کار حبیب اکرم سے سوال کرتے ہوئے پوچھا وزیر داخلہ احسن اقبال انتہائی سخت اقدامات جنرل پرویزمشرف کے حوالے سے تجویز کر رہے ہیں، کیا اسی قسم کی سوچ اسحاق ڈار کے حوالے سے بھی ہو گی،
جس پر تجزیہ کار حبیب اکرم نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا کہ ہم مسلم لیگ (ن) سے اتنی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اتنی منصفانہ ہو جائے گی کہ جو پرویز مشرف کے ساتھ سلوک کیا جائے وہ حسین اور حسن اور اسحاق ڈار کے ساتھ بھی کیا جائے گا، حبیب اکرم نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس میں رکاوٹیں ڈالی جائیں گی اورحکومت میں رہنے کا پورا فائدہ اٹھایا جائے گا لیکن پرویز مشرف والا معاملہ جون 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے اندر زیر بحث آیا تھا، جب سب لوگ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے تھے تو جے آئی ٹی کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ بات ڈسکس ہوئی کہ ہم جون 2017ء میں پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کریں یا دوسری ضابطہ کی کارروائیاں شروع کریں لیکن اس وقت چوہدری نثار اور ان کے ہم خیالوں کی وجہ سے یہ چیز آگے نہیں بڑھ پائی لیکن 28 جولائی کو فیصلہ آ جانے کے بعد یہ سمجھا گیا کہ اگر مسلم لیگ (ن) ایسا کچھ کرتی ہے تو یہ بدلہ لینے کی کیفیت ہو گی، حبیب اکرم نے کہا کہ دس مہینے کی خرابی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے سمجھ لیا ہے کہ ان کی جن طبقات سے لڑائی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان طبقات کا نمائندہ پرویز مشرف ہے اور اس کو واپس لانے سے ان کی مشکل کچھ آسان ہو سکتی ہے۔ ہم مسلم لیگ (ن) سے اتنی توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اتنی منصفانہ ہو جائے گی کہ جو پرویز مشرف کے ساتھ سلوک کیا جائے وہ حسین اور حسن اور اسحاق ڈار کے ساتھ بھی کیا جائے گا