اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی و معروف کالم نگار ہارون رشید نے ایک موقر قومی اخبار میں اپنے کالم میں لکھا کہ ہر آدمی یہ سوچتا ہے کہ اس اظہار سے کیا حاصل؟ اس تلقین کا کیا فائدہ؟ سب جانتے ہیں سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوتی ہے۔خلقِ خدا کے تیور دیکھنے کوہستانِ نمک کے دامن میں آباد لِلہ نامی قصبے کا قصد کیا۔ رکنیت سازی کی مہم کے لیے کل عمران خان کا پہلا پڑاؤ۔انہوں نے مزید لکھا کہ ہجوم امڈ کر آیا کہ حیرت ہوئی۔
تیس پینتیس ہزار آبادی کا قصبہ ہے۔ نادر خصوصیت اس کی یہ ہے کہ لِلہ انصاری نام کی ایک ہی برادری آباد ہے۔ کوشش کے باوجود یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کس قبیلے کی ذیلی شاخ ہے۔ اسلام آباد کے سابق کمشنر طارق پیرزادہ نے کہا: یہ اپنی طرز کے لوگ ہیں۔ دو سو برس پہلے پیرزادہ کے جدِ امجد سید کرم شاہ لاہور سے اس ویرانے میں تشریف لائے تھے۔ مدنیہ منورہ سے خراسان، خراسان سے ملتان، ملتان سے لاہور اور لاہور سے کھارا تشریف لائے تھے‘ جو اب کھارا شریف کہلاتا ہے۔ موٹر وے بننے کے بعد جب بھی یہاں سے گزر ہوا، خیال آیا کہ کوہستان نمک کی چھاؤں میں ایک اور قصبہ یہاں آباد ہونا چاہئے۔ اب اس کی نیو رکھی جا رہی ہے۔ شہتوت کا ایک باغ‘ اس کے سامنے چھوٹا سا ہسپتال اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس۔ کھارا سے دریائے جہلم کی سمت، لِلہ کی طرف جانے والی سڑک چوڑائی میں برائے نام لیکن تعمیری نفاست کا شاہکار ہے۔ ستر برس میں ٹھیکیداروں کی پوری نسل اس ملک میں پروان چڑھی ہے۔ سرکاری افسروں اور ارکان اسمبلی سے مل کر آدھا پیسہ وہ ڈکار جاتے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی معقول آدمی بروئے کار آیا، کوئی معجزہ رونما ہوا ہے۔ لیڈر دو گھنٹے کی تاخیر سے آیا۔ حفاظتی انتظامات سخت تھے۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری، طارق پیرزادہ اور بلال الرشید کے ساتھ بمشکل میں اس لاؤنج تک پہنچ سکا جہاں ظہرانے کا انتظام تھا۔ ایک ہڑبونگ مگر امید اور بشاشت سے چمکتی ہوئی پیشانیاں۔ پانچ چھ مستعد محافظوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا‘ لیکن وہ ہمیشہ کی طرح بے نیاز بلکہ لاابالی۔
فوراً ہی اس نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ فوراً ہی جوتا کاری کا ذکر شروع ہو گیا۔ کسی نے جملہ اچھالا: کوشش تو کئی ایک نے کی لیکن نشانے پر ایک ہی لگا۔ اس پر قہقہہ پڑا۔ عمران نے آسمان کی طرف دیکھا اور زیر لب کوئی دعا پڑھی۔ اقتدار کی بے قابو خواہش میں، شدید باہمی نفرت میں، لیڈروں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ بات جوتا کاری سے آگے جا سکتی ہے۔ اپنے حامیوں کو سمجھانے بجھانے کی کوئی تدبیر اگر عمران خان اور محمد نواز شریف نے نہ کی تو خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔
خان کا موقف یہ تھا کہ ان کے کسی ایک بھی کارکن نے جسارت نہیں کی‘ الٹا وہ لیگیوں کا ہدف ہیں‘ پھر وہ قصورواروں کی صف میں کیوں ہیں۔ عمران اس پر شاد تھا کہ نون لیگ سینیٹ کا الیکشن ہار گئی۔ اس کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ تحریک انصاف کے ایک لیڈر نے میرے کان میں کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا معرکہ بھی وہ سر کر لیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کے اعظم سواتی کو تیس سینیٹرز کی تائید حاصل ہے۔ اپنی پارٹی کے علاوہ بلوچستان کے آزاد گروپ، ایم کیو ایم، فاٹا اور جماعت اسلامی کی۔
اگر یہ دعویٰ درست ہے تو نشیب سے نکل کر ہموار میدان میں داخل ہونے والی پارٹی تحریک انصاف بلندی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کیلئے سرکاری امیدوار کو ووٹ دینے پر، جماعت اسلامی کی کچھ زیادہ ہی مذمت نہیں کی جا رہی؟۔ انقلابی نہیں وہ ایک سیاسی پارٹی ہے، جسے اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہے۔ پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کی آرزومند تھی۔ قصوروار کوئی بھی ہو یہ اتحاد ہو نہ سکا۔ اب نون لیگ، مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کے ساتھ مل کر اسے میدان میں اترنا ہے۔
انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ روزنامہ دنیا کے سٹاف نے وادی پشاور کا جو جائزہ لیا ہے، اس کے مطابق عمران خان کی برتری غیر معمولی ہے لیکن سوات، دیر، بونیر، چترال اور ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ نیب نے بلین ٹری سونامی کی تفتیش کا جو آغاز کیا ہے اس کے نتائج رائے عامہ پہ اثر انداز ہوں گے۔ جہاں تک اس ناچیز کی محدود سی تحقیق کا تعلق ہے، جسٹس جاوید اقبال کا جائزہ، کپتان کو سرخرو کرے گا۔ اگر یہ اندازہ درست ہے، اگر نیب کی رپورٹ الیکشن سے پہلے منظر عام پر آ گئی تو مولانا فضل الرحمن، میاں محمد نواز شریف اور اسفند یار ولی کیلئے یہ ایک یوم سیاہ ہو گا۔
جماعت اسلامی کیلئے نہیں کیونکہ اس موضوع پر وہ خاموش ہے‘ ایک چپ سو سکھ۔ سوشل میڈیا پر دونوں جماعتوں کے کارکن بہرحال ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ وہی جھگڑالو دیہاتی عورتوں والی طعنہ زنی‘ وہی الزام تراشی۔ پہلے غصے اور فنا ہونے کے خوف کا امتزاج اعصاب پہ غالب آتا ہے۔ عقل کا چراغ پھر بجھ جاتا ہے اور مخالف کو پامال کرنے کی آرزو واحد ترجیح بن کے رہ جاتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف ہوں یا عمران خان، حاصل بزنجو ہوں یا محمود اچکزئی، حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی ہوں یا ایم کیو ایم کے متحارب گروپ، ان معرکوں سے کبھی کسی کو کچھ ملا ہے نہ ملے گا۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ دیوانگی کا شکار، بکتے جھکتے لشکروں میں سے کبھی کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ کسی اور قوت کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے جھاگ اڑاتے کارکنوں پہ کوئی تعجب نہ ہوا۔ ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ کسی کو پروا ہی نہیں کہ دشمن کے گھر کو لگائی جانے والی آگ کبھی اپنا خرمن بھی پھونک دیتی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں پہ کچھ حیرت ہوئی۔ زیادہ تو نہیں مگر کچھ تھوڑی سی کہ وہ بھی نون لیگ کے میڈیا سیل کی زبان بول رہے ہیں‘ اور پورے جوش و خروش کے ساتھ۔ چودہ سو برس ہوتے ہیں۔ ایک صحرائی بستی میں دو آدمی دست و گربیاں ہونے پہ تلے تھے۔
ایک مقدس ہستی نے ان پہ نظر کی اور کہا ایک ایسا کلمہ مجھے معلوم ہے کہ اگر وہ پڑھ لیں تو غصے کی آگ بجھ جائے۔ کسی خیر خواہ نے ان میں سے ایک کو جا سنایا۔ جواب میں اس نے کہا ’’کیا میں پاگل ہوں‘‘ اس بستی کا نام یثرب تھا جسے اب مدینۃ النبی کہا جاتا۔ یہ مقدس ہستی کوئی اور نہیں خود جناب رسالت مآب، وجہ نمودِ کائنات، رحمۃ للعالمین ابوالقاسم حضرت محمدمصطفیﷺ تھے۔ ایسی بری چیز ہے برہمی اور بہت ہی برے اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ بات سمجھانی تھی وہ خود بھول چکے۔ انہیں کون سمجھائے۔ اس چھوٹے سے قدیم قصبے میں ہر تیسرا چوتھا آدمی یہ لطیفہ کسی کو سنا رہا تھا کہ جناب شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کا موازنہ قائد اعظم سے کیا‘
اور محترمہ مریم نواز نے جمہوریت کیلئے اپنی اور اپنے گرامی القدر والد کی جدوجہد میں ناموزوں حوالہ دیا‘ میرا خیال ہے کہ ان کی نیت میں نقص نہیں‘ مگر الفاظ کے انتخاب میں محتاط ہونا چاہئے۔ ان پر انحصار نہیں کرنا چاہئے اللہ کو نہیں جو بندوں کو رزاق سمجھتے ہیں۔ ہمارے آپ کی طرح جو اسی کو رب مانتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ عزت، رزق، زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہے، جس کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا۔ سیدالانبیا کی تعریف و تحسین کے قابل کون ہے۔سیدہ فاطمۃ الزہراؓکے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ وہ تاریخ کی نادر ترین ہستی ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی نورِ نظر، اللہ اور ان کے فرشتے جن پر درود بھیجتے ہیں۔ سیدنا علیؓ کی شریکِ حیات۔ سیدنا امام حسنؓ اور سیدنا امام حسینؓ کی مادرِ مشفق و مہرباں۔ پھر آدمی یہ سوچتا ہے کہ اس اظہار سے کیا حاصل؟ اس تلقین کا کیا فائدہ؟ سب جانتے ہیں سچائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہوتی ہے۔