آج پاکستان مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کو پارٹی کا تاحیات قائد اور میاں شہباز شریف کو قائم مقام پارٹی صدر بنا دیا‘ یہ آج کی سب سے بڑی خبر تھی لیکن اس سے بھی بڑی خبر پارٹی کے سینئر ترین لیڈر اور شریف برادران کے قریبی ساتھی چودھری نثار کو مرکزی مجلس عاملہ میں شرکت کی دعوت نہ دینا ہے‘ میاں نواز شریف چودھری نثار کے اس نوعیت کے اعتراضات پر ان سے ناراض ہیں جن میں چودھری نثار نے سرعام ان کے بیانیے کی مخالفت کی تھی،
میاں شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق دیر تک میاں نواز شریف کو منانے کی کوشش کرتے رہے لیکن میاں صاحب نے چودھری نثار کو بلانے سے انکار کر دیا‘ میں دل سے سمجھتا ہوں‘ یہ زیادتی ہے‘ اگر جمہوری جماعتیں بھی اپنے سینئر ترین رکن کو اختلاف رائے کا حق نہیں دیں گی تو پھر یہ جمہوری جماعتیں کیسے ہوئیں‘ پھر ان میں اور آمریت میں کیا فرق ہوا‘ جمہوریت اختلاف رائے اور برداشت کا نام ہوتا ہے لیکن آپ اگر اپنے قریبی اور سینئر ترین ساتھی کے اختلاف کو بھی برداشت کرنے‘ آپ اگر اس کی رائے سننے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پھر آپ کیسے جمہوری لیڈر ہیں‘ آپ اگر مشاہد حسین سید کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں بلا سکتے ہیں جو 18 سال آپ کے مخالف رہے‘ جو آپ کو ان سیکور پرسنیلٹی کہتے تھے اور جو آپ کو مشکل میں چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کے ٹرک پر چڑھ گئے تھے تو آپ کو آج اس چودھری نثار کے ساتھ یہ نہیں کرنا چاہیے تھا جو 35 سال تک آپ کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے رہے اور جن کو آپ کے صرف اس قسم کے غیر جمہوری رویوں پر اعتراض تھا۔ یہ زیادتی ہے اور آپ کو بھی اپنے یہ رویئے تبدیل کرنا ہوں گے۔ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، میاں شہباز شریف پارٹی کے نئے صدر بن چکے ہیں‘ یہ صرف صدارت کی تبدیلی ہے یا پھر اس تبدیلی کے ساتھ ہی پارٹی کا بیانیہ بھی تبدیل ہو جائے گا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ آج میاں شہباز شریف نے پتوکی میں جو اعلان کیا، کیا یہ کمیشن بننا چاہیے‘ آج چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے، خدا کی قسم میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں‘ سیاسی مقدمات کو ہاتھ لگانے کا بھی دل نہیں کرتا‘ صرف چاہتا ہوں لوگوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں‘ کیا میاں نواز شریف کو چیف جسٹس کی قسم پر بھی اعتبار نہیں‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔