اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار عمار چوہدری نے اپنے کالم میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف جس فرانزک لیبارٹری کی بنیاد پر مجرم کو پکڑنے کے دعوے کر رہے تھے‘ نہ صرف وہ آئیڈیا سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا تھا بلکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کا یہ ایکٹ اکتوبر 2007ء میں پرویز الٰہی کی سربراہی میں ہی پنجاب حکومت نے منظور کیا تھا۔
اس سلسلے میں چار جنوری 2007ء کو صوبائی کابینہ کی پہلی میٹنگ ہوئی جس کی صدارت کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے بتایا کہ ایکٹ کے قیام کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کیونکہ شخصی شہادت مختلف قسم کے دباؤ، ترغیبات اور مسائل کا شکار ہو کر کیس کا رخ تبدیل کر سکتی ہے، لیکن سائنٹفک طبی شہادت کو نہ تبدیل کیا جا سکتاہے اور نہ ہی اس سے مفر ممکن ہے۔ اکتوبر 2007ء میں پنجاب اسمبلی نے پنجاب فرانزک لیب ایکٹ پاس کیا۔ 2008ء میں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے ان تمام منصوبوں کا جائزہ لیا جو پرویز الٰہی نے شروع کئے تھے۔ ایسے بہت سے منصوبے ختم کر دئیے گئے جن کا سنگِ بنیاد پرویز الٰہی رکھ چکے تھے؛ تاہم چند ایسے منصوبے شہباز شریف ختم نہ کر سکے جو نہ صرف مفاد عامہ کے حق میں ناگزیر تھے بلکہ انہیں ختم کرنے سے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔ ان میں رنگ روڈ‘ ریسکیو گیارہ بائیس‘ ہسپتالوں میں مفت ادویات اور فرانزک سائنس لیبارٹری جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اکتوبر 2009ء میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی پراجیکٹ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جو جون 2013ء میں مکمل ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں کرائم لیبارٹری سے متعلق تمام تر تفتیشی سہولتیں میسر ہیں تو پھر ان سے کماحقہٗ فائدہ کیوں نہ اٹھایا گیا۔ آپ قصور میں زیادتی کے واقعات ہی لے لیں۔ قصور میں دو سو چوراسی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا سکینڈل اگست 2015ء میں سامنے آیا۔
ملزمان جہاں بچوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے، وہیں انہیں اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے بدفعلی کرنے پر بھی مجبور کرتے رہے۔ ملزمان نے بچوں کی چار سو سے زائد ویڈیوز بنائیں اور پچاس پچاس روپے کے عوض گاؤں حسین خاں والا میں فروخت کیں۔ ایک خاتون نے اپنے چودہ سالہ بیٹے کی ویڈیو ختم کرنے کے لئے بلیک میلرز کو ساٹھ ہزار روپے ادا کیے۔ ایک اور دیہاتی کا کہنا تھا کہ اس گھناؤنے عمل کے ملزم یہ ویڈیوز بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے تھے؛ تاہم مقامی ایم پی اے کے دباؤ پر پولیس نے پچاس لاکھ روپے لے کر کیس کے مرکزی ملزم کو رہا کر دیا اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر کیس واپس لینے کیلئے دبا ؤ ڈالتے رہے۔ اس کیس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا اس کیس کا انجام زینب کیس جیسا ہوا؟ سوال یہ ہے کہ پنجاب فرانزک لیب‘ جس کے وزیراعلیٰ پنجاب آج بڑے گن گا رہے ہیں، کیا یہ لیب 2015ء میں آپریشنل نہیں تھی؟ اگر آپریشنل تھی تو اس سے کیا مدد لی گئی اور اس کے نتائج کہاں ہیں؟