نئی دہلی(آئی این پی) بھارتی آرمی چیف جنرل بیپن راوت نے کہا ہے کہ پاکستان کو تکلیف کا احساس دلاتے رہنا ہماری پالیسی ہے،امریکا پاکستان کشیدگی پر بھارت کو دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی اپنانی ہوگی، پاکستان دہشت گردوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرکے پھینک دیتا ہے ، چین طاقتور ملک ہے اور بھارتی سرحدوں پر دبا ئوبڑھا رہا ہے لیکن بھارت بھی کمزور نہیں، سرحد پر
چین سے خطرات کا سامنا ہے لیکن بھارتی فوج کسی بھی چینی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی توجہ شمالی سرحد پر مرکوز کرے، جوہری ، کیمیائی، حیاتیاتی اور تابکار ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، آئندہ جنگ جیتنے کے لیے فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا۔جمعہ کو بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا کہ چین طاقتور ملک ہے اور بھارتی سرحدوں پر دبا ئوبڑھا رہا ہے لیکن بھارت بھی کمزور نہیں، سرحد پر چین سے خطرات کا سامنا ہے لیکن بھارتی فوج کسی بھی چینی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی توجہ شمالی سرحد پر مرکوز کرے۔امریکا کی پاکستان کو دھمکیوں سے متعلق سوال کے جواب میں بھارتی آرمی چیف نے کہا کہ بھارت کو دیکھو اور انتظار کرو والی پالیسی اپنانی ہوگی، پاکستان دہشت گردوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرکے پھینک دیتا ہے لیکن بھارتی فوج نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو بھی تکلیف کا احساس دلایا جاتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ جوہری ، کیمیائی، حیاتیاتی اور تابکار ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، آئندہ جنگ جیتنے کے لیے فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا۔جنرل بپن راوت
نے بتایا کہ اس سال مقبوضہ کشمیر کے شمالی علاقوں میں آپریشن پر زیادہ توجہ دی جائے گی، 2017 میں بھارتی فوج نے جنوبی کشمیر میں زیادہ آپریشن کیے اور اس سال شمالی کشمیر کے علاقوں بارہ مولا، پٹن، ہنڈوارہ، کپواڑہ، سوپور، لولاب اور بانڈی پورا میں زیادہ فوجی آپریشن کیے جائیں گے۔جنرل بپن راوت نے خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے کہا کہ بھارت اپنے
پڑوسی ممالک کو چین کے زیر اثر نہیں جانے دے گا۔امریکہ کی طرف سے پاکستان کو فوجی امداد کی معطلی کے حوالے سے بھارتی آرمی چیف نے کہاکہ یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کا پاکستان بھارت اور دیگر پڑوسیوں پر کتنا اثر پڑے گا۔