اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کا سینیٹ میں آنا اور بریفنگ دینا اچھا شگون ہے، قبل از وقت الیکشن کے حامی تحریک عدم اعتماد لے آئیں، مسلم لیگ (ن) کے پاس سینیٹ میں اکثریت موجود ہے، مسلم لیگ(ن)نے عدلیہ کے ہر فیصلے کو مانا ہے، عدلیہ کے فیصلوں سے ملک کو نقصان ہوا، عدلیہ کو عدالت کے باہر اور ٹاک شوز میں عدالت لگانے سے روکنا چاہیے تھا،سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہونے چاہئیں، نواز شریف اگلے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے
لیکن الیکشن کے مرحلے کا حصہ ہوں گے،متفقہ رائے سے فیض آباد دھرنے کے مسئلے کو حل کیا گیا، اگر ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کو آرمی افسران کی جانب سے کسی قسم کی قانون سازی رکوانے کیلئے کالز گئی ہیں تو یہ بات مناسب نہیں، ماضی میں بھی ایسی چیزیں ہوتی رہی ہیں جو کہ درست نہیں، آرمی چیف نے بھی سینیٹ میں اس خیال کا اظہار کیا کہ فوج کا کام سیاست کرنا نہیں ہے، ارکان اسمبلی کو دھمکیاں دینا درست نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے، اخبار پڑھ کر لگتا ہے کہ کل حکومت نہیں ہو گی، اگر جنرل مشرف نواز شریف کو 14سال سیاست سے باہر رکھ کر سیاست سے الگ نہیں کر سکا تو 28جولائی کا فیصلہ کیسے اثر ڈالے گا، عدالتی ریمارکس پر اظہار رائے کا حق سب کو ہے، اگر پارٹی نے مجھے وزیراعظم کیلئے نامزد کیا تو سوچوں گا، مریم نواز پارٹی کی فعال رکن ہیں،1999کے بعد (ن) لیگ کے علاوہ تمام جماعتوں نے سمجھوتے کئے، نواز شریف عدلیہ تحریک شروع نہ کرتے تو عدلیہ بحال نہ ہوتی، مریم نواز نے سوشل میڈیا پر پارٹی کیلئے بہت کام کیا ہے، سیاسی کے فیصلوں کی اصل جگہ پولنگ اسٹیشن ہے، نواز شریف(ن) لیگ کا حصہ ہیں، تھے اور رہیں گے، معلوم نہیں طاہر القادری پاکستانی شہری ہیں بھی یا نہیں، کسی غیر ملکی شہری کو پاکستان میں فسادات پھیلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔وہ بدھ کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت گزانے کیلئے ہو سکتا ہے کوئی خفیہ ہاتھ کام کررہے ہوں مگر میں ان پر اتنا یقین نہیں رکھتا، ہمیں اپنا کام کرنا ہے، خفیہ ہاتھ ہمیشہ غیر آئینی ہوتے ہیں، آئیڈیل صورتحال کوئی نہیں ہوتا، ہم نے متفقہ رائے سے فیض آباد دھرنے کے مسئلے کو حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ اچھا ہے، آرمی چیف کے سینیٹ میں بریفنگ دینے سے اچھی روایت پڑی ہے، میل جول سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں، ہر دوسرے ہفتے نیشنل سیکیورٹی میٹنگ بھی ہوتی ہے،
جس میں تمام مسائل پر گفتگو ہوتی ہے، صورتحال جو بھی ہو ہم نے اپنا کام کرنا ہے، ملک کی سیکیورٹی صورتحال ماضی سے بہت بہتر ہے۔ آرمی کے افسران کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی کو ٹیلیفون کالز کے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ایسی باتیں اخباروں میں بھی آئی ہیں اگر ایسی کوئی کالز گئی ہیں تو یہ بات مناسب نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسی چیزیں ہوتی رہی ہیں، آرمی چیف نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ فوج کا کام سیاست کرنا نہیں ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو دھمکی آمیز کالز سے متعلق اطلاعات ملی تھیں،
اراکین کو دھمکیاں دینا درست نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہماری حکومت کے بارے میں خدشات کا اظہار لوگ کرتے رہتے ہیں مگر انشاء اللہ ہماری پوری کوشش ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور پھر انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے، اگر کسی نے الیکشن پہلے کرانے ہیں تو عدم اعتماد لے کر آئے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے، اخبار پڑھ کر تو لگتا ہے کہ حکومت ایک دن بھی نہیں چلے گی جبکہ صورتحال مختلف ہے، حکومت اپنا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی، مسلم لیگ (ن) کے پاس سینیٹ میں اکثریت آئے گی،
میاں نواز شریف ملک کے سینئر سیاستدان ہیں وہ 3دفعہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، ان کو اگر عدالتی فیصلوں سے متعلق تحفظات ہیں تو ان کا اظہار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، عدالتی فیصلے کو عوام نے قبول کیا یا نہیں یہ وقت بتائے گا، ہم بھی ایک سیاسی جماعت ہیں، ہم پر حملہ ہو گا تو اس کا جواب دینا پڑے گا، مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ کے ہر فیصلے کو مانا ہے مگر عدلیہ کے فیصلے سے ملک کو نقصان ہوا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدلیہ کو عدالت کے باہر اور ٹاک شوز میں لوگوں کو عدالت لگانے سے روکنا چاہیے تھا،
کورٹ کے فیصلوں کو پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث نہیں لایا جاتا جبکہ یہاں سڑکوں پر اور ٹی وی پر بیٹھ کر کورٹ کی ہر بات کو زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کے فیصلے عدالت میں نہیں ہوتے، یہ فیصلے عوام کرتے ہیں، مسلم لیگ(ن)کو نواز شریف کے نام پر ووٹ ملتا تھا، ملتا ہے اور ملتا رہے گا، عدالتی فیصلوں سے نواز شریف کی ساکھ میں کوئی کمی نہیں آئی،ان کا سیاست میں رول ہے اور رہے گا، ان کو انتخابات کا حصہ بنانے کیلئے ہم کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے
کیونکہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، سابق صدر جنرل(ر)پرویزمشرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو 14سال ملک سے باہر رکھ کر سیاست سے باہر نہیں رکھ سکا تو عدالتی فیصلے انہیں کیسے سیاست سے باہر رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی ریمارکس پر اظہار رائے کا حق سب کو ہے، میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر و چیف منسٹر ہیں، انہوں نے سب سے بڑے صوبے میں بہت اچھا کام کیا ہے، اگلے وزیراعظم کی نامزدگی پارٹی نے کرنی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مریم نواز پارٹی کی فعال رکن ہیں،
پارٹی مریم نواز کو جورول دے گی، وہ اسے ادا کریں گی، 1999کے بعد سے جو جماعت اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے خلاف کام کرتی رہی وہ مسلم لیگ (ن) ہے، ہمارا ہر قدم بغیر کسی دباؤ کے ملک کے مفاد میں ہوتا ہے، نواز شریف عدلیہ تحریک شروع نہ کرتے تو عدلیہ بحال نہ ہوتی۔ اسحاق ڈار سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اسحاق ڈار کی طبیعت ٹھیک نہیں جس لئے وہ ملک سے باہر ہیں، ان کی غیر حاضری میں، میں نے خود خزانہ کی ذمہ داریاں سر انجام دیں اور اب اس کام کی ذمہ داریاں دوسرے لوگوں کو سونپی گئیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یکم جنوری کے بعد کچھ نہیں ہو گا، جس کو انصاف چاہیے وہ عدالتوں میں جائے، طاہر القادری صاحب پاکستان کے شہری بھی ہیں یا نہیں یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے، غیر ملکی شہری پاکستان میں آ کر فسادات پھیلائے یہ بات مناسب نہیں ہے، اگر طاہر القادری پاکستان کے حق میں اچھا سوچتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ الیکشن میں حٹہ لیں اور پاکستان کے لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات ہو چکی ہیں، اس سانحہ کے حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ختم نبوتؐ معاملہ کے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے مل کر قانون بنایا اور مسئلے کی نشاندہی کے بعد اسے حل کردیا گیا،
اس سے بڑھ کر اس معاملے میں کچھ بھی نہیں ہے، تمام حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں یکم جون سے 15جولائی تک الیکشن ہوں گے، سینیٹ انتخابات مارچ کے آغاز میں ہوں گے، دھرنے دینے والوں کے مسائل کچھ اور ہیں، ماڈل ٹاؤن سانحہ کو جس طرح ٹی وی پر دکھایا گیا معاملات اس سے مختلف ہیں، وہاں پر 18گھنٹے پولیس کو مارا گیا اور فائرنگ کس کی طرف سے ہوئی یہ بھی واضح ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ملک سب کا ہے صرف حکومت کا نہیں ہے، سب کو ذمہ داری دکھانی ہو گی۔ چیف جسٹس کی تقریر کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں، عدالتیں میڈیا بیانوں، ریمارکس اور تقریروں میں نہیں بولتیں، اگر کورٹ کو بولنے کی ضرورت پڑے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلے میں کمزوری ہے، عدلیہ کے فیصلوں سے ملک میں غیر ملکی انویسٹمنٹ رک گئی اس کا کون ذمہ دار ہے۔(اح)