آج سے 25 سو سال پہلے چین میں ایک جرنیل ہوتا تھا سن تزو‘ وہ پوری زندگی جنگیں لڑتا رہا اور جیتتا رہا ‘اس نے زندگی کے آخری حصے میں جنگوں کی تکنیکس پر ایک شاندار کتاب لکھی‘ یہ کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ کہلاتی ہے اور یہ جنگی تکنیکس پر لکھی جانے والی آج تک کی تمام کتابوں میں پہلے نمبر پر آتی ہے‘ سن تزو نے کتاب میں جنگ جیتنے کے تین بڑے آرٹس بیان کئے ہیں‘اس کا کہنا تھا آپ لڑے بغیر اپنے دشمن کو شکست دے دیں‘
یہ جنگ کا سپریم آرٹ ہے‘ اس کا کہنا تھا آپ کی جیت اور ہار کا فیصلہ آپ کا دشمن نہیں کرتا آپ خود کرتے ہیں‘ آپ جیتنا چاہتے ہیں تو آپ کو کوئی ہرا نہیں سکتا اور آپ اگر اندر سے ہارے ہوئے ہیں تو پھر مضبوط سے مضبوط فوج بھی آپ کوجتوا نہیں سکتی اور آخری آرٹ آپ اگر اپنے آپ اور اپنے دشمن سے واقف ہیں تو آپ کو سو جنگوں میں بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا‘ آپ اگر اپنے دشمن سے واقف ہیں لیکن آپ اگر اپنی صلاحیتوں سے آگاہ نہیں ہیں تو پھر آپ ایک جنگ جیتیں گے اور دوسری ہاریں گے اور آپ اگر اپنے دشمن سے بھی ناواقف ہیں اور آپ اگر اپنے آپ کو بھی نہیں جانتے تو پھر آپ کبھی کوئی جنگ نہیں جیت سکتے‘ میاں نواز شریف اس آخری صورتحال کا شکار ہیں‘ یہ اپنے آپ یعنی اپنی پارٹی کی صلاحیتوں اور اخلاص سے بھی واقف نہیں ہیں اور یہ اپنے اصل دشمن سے بھی آگاہ نہیں ہیں چنانچہ یہ گومگو کی صورتحال میں اپنا وقت اور انرجی دونوں ضائع کر رہے ہیں‘میاں نواز شریف اگر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو پھر پہلے انہیں اپنے اصل دشمن کا تعین کرنا ہوگا‘ پھر اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا اندازہ کرنا ہوگا اوراس کے بعد میدان میں اترنا ہوگا ورنہ یہ سن تزو کے مطابق یہ جنگ بھی ہار جائیں گے۔ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں ، میاں نواز شریف اگر تحریک چلاتے ہیں تو انہیں علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے چیلنج کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور یہ اگر اتنے بڑے اعلان کے بعد تحریک نہیں چلاتے تو انہیں بہت بڑا ’’سیٹ بیک‘‘ ہو گا‘ نواز شریف کے پاس کیا آپشن ہے؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔