امریکہ پوری دنیا میں رسوا ہو گیا، امریکی سفارتخانے بند،پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظاہرے، محمود عباس بھی ڈٹ گئے، نائب امریکی صدر کا استقبال نہ کرنے کا فیصلہ، ٹرمپ انتظامیہ دھمکیوں پر اتر آئی

8  دسمبر‬‮  2017

واشنگٹن (این این آئی)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد جہاں اسلامی اور عالمی سطح پر شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے وہیں امریکا نے جوابی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کردی ۔غیرملکی خبررساں ادارے نے امریکی وزارت خارجہ کی ایک دستاویز شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے

کہ امریکا نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ القدس کے بارے میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اپنا رد عمل نرم رکھے۔ دستاویز کے مطابق واشنگٹن کو صدر ٹرمپ کیالقدس بارے فیصلے پر عالمی رد عمل کی توقع ہے اور امریکا اپنے اداروں اور افراد کو لاحق ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کررہا ہے۔دستاویز کو تل ابیب میں قائم امریکی سفارت کاروں کو بھیجا گیا ہے۔ دستاویز میں صدر ٹرمپ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ القدس کے حوالے سے خبر کا اعلانیہ خیر مقدم کریں گے‘ میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ آپ سرکاری رد عمل میں ہاتھ ہلکار رکھیں۔ دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کے جانے کے رد عمل میں مشرق وسطیٰ اور پورے مشرق وسطیٰ میں مزاحمت ہوسکتی ہے۔ ہم اس فیصلے کے اثرات وعواقب کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بیرون ملک امریکی شہریوں اور امریکی اداروں کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ نے القدس بارے صدارتی فیصلے کے رد عمل میں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ایک امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی حکومت کے کسی فیصلے پر متوقع عالمی رد عمل کے تناظر میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی فورسز کی تشکیل معمول

کی بات ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے ان دستاویزات پر کوئی سرکاری رد عمل جاری نہیں۔دوسری جانباردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے باطل قرار دیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق عمان میں

شاہی دیوان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ مملکت کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مکمل حمایت کا اعلان کیا اورکہاکہ اردن فلسطینیوں کے تاریخی حقوق اور دیرینہ مطالبات کی حمایت جاری رکھے گا۔ القدس کے بارے میں امریکی صدرکا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ اردن کی حکومت مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی

مساعی جاری رکھے گی۔قبل ازیں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے عمان میں اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی۔ ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان اور اس کے بعد کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں رہ نماؤں نے امریکی اقدام کے خلاف عالمی سطح پر سفارتی کوششیں

تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ واضح کیا کہ القدس اور قضیہ فلسطین کا بین الاقوامی قراردادوں اور عالمی قانون کے تحت حل ناگزیر ہے۔اس موقع پر اردنی فرمانروا نے فلسطینی قوم کے حقوق کے تحفظ اور بیت المقدس کی اسلامی اور عرب شناخت کی بقاء کے لیے عرب، مسلمان ممالک اور عالمی سطح پر کوششیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔شاہ عبداللہ سے بات چیت کرتے ہوئے

محمود عباس نے کہا کہ تمام عرب ممالک کو امریکی اعلان کے جواب میں یکساں رد عمل اختیار کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امریکی صدر کے القدس کے بارے میں متنازع اعلان نے خطے کو ایک نئی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ اور غیرآئینی اقدام کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔دونوں رہ نماؤں نے واضح کیا کہ مقبوضہ بیت المقدس

کی تاریخی، قانونی اور مذہبی حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی قوم مشرقی بیت المقدس سے کسی قیمت پر دست بردار نہیں ہوگی۔فلسطینی جماعت فتح کے ایک سیرہ عہدہ دار نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے فیصلے کے بعد امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کا اب فلسطین میں خیر مقدم نہیں کیا جائے گا

۔فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت فتح کے ایک سینیر رہ نما جبریل رجوب نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی نائب صدر کا اسی ماہ خطے کے دورے کے موقع پر فلسطین میں استقبال نہیں کیا جارہا ہے۔انھوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ صدرمحمود عباس ان سے مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں ان کے حالیہ بیانات کی بنا پر ملاقات نہیں کریں گے۔

تاہم خود صدر محمود عباس یا ان کے ترجمان نے اس ضمن میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔دریں اثناوائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ اگر محمود عباس اور مائیک پینس کے درمیان طے شدہ ملاقات منسوخ کی جاتی ہے تو اس کے ’’ردعمل مسائل‘‘ پیدا ہوجائیں گے اور اس کے منفی مضمرات ہوسکتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق وائٹ ہائوس کے ایک ترجمان نے جاری کیے گئے بیان میں کہاکہ

فلسطینیوں کے شدید ردعمل کے بعد اب وائٹ ہاؤس نائب صدر کی صدر محمود عباس سے طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرسکتا ہے۔البتہ ایسا وہ اس وقت کرے گا جب فلسطینی صدر خود ان سے ملاقات نہ کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔دوسری جانب عالم اسلام سمیت دنیا بھر کے دیگر ممالک میں اس فیصلے کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے آج

جمعہ روز کے روز بعد از نماز جمعہ احتجاج کی کال دے رکھی ہے ۔ ممکنہ ردعمل اور کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں تک جانے والے راستوں کو کنٹینر رکھ کر بلاک کر دیا گیا ہے جبکہ پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری تعداد بھی تعینات ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت

قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد جہاں اسلامی اور عالمی سطح پر شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے وہیں امریکا نے جوابی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کردی ۔غیرملکی خبررساں ادارے نے امریکی وزارت خارجہ کی ایک دستاویز شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ القدس کے بارے میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اپنا رد عمل نرم رکھے۔

دستاویز کے مطابق واشنگٹن کو صدر ٹرمپ کیالقدس بارے فیصلے پر عالمی رد عمل کی توقع ہے اور امریکا اپنے اداروں اور افراد کو لاحق ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کررہا ہے۔دستاویز کو تل ابیب میں قائم امریکی سفارت کاروں کو بھیجا گیا ہے۔ دستاویز میں صدر ٹرمپ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ القدس کے حوالے سے خبر کا اعلانیہ خیر مقدم کریں گے‘

میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ آپ سرکاری رد عمل میں ہاتھ ہلکار رکھیں۔ دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کے جانے کے رد عمل میں مشرق وسطیٰ اور پورے مشرق وسطیٰ میں مزاحمت ہوسکتی ہے۔ ہم اس فیصلے کے اثرات وعواقب کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بیرون ملک امریکی شہریوں اور امریکی اداروں کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے منصوبہ بندی

کی جا رہی ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ نے القدس بارے صدارتی فیصلے کے رد عمل میں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ایک امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی حکومت کے کسی فیصلے پر متوقع عالمی رد عمل کے تناظر میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی فورسز کی تشکیل معمول کی بات ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے ان دستاویزات پر کوئی سرکاری رد عمل جاری نہیں۔

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…