اسلا آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم نواز شریف نے لاہور میں وکلا کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ روز کئی مقدمات لڑتے ہیں میں بھی عوام کی عدالت میں ملک ، عوام اور جمہوریت کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، پاکستان اور وکلا کا رشتہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ 1930میں پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ اقبال ؒ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ، ان کے خواب
کے تعبیر کی شکل دینے والے قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی وکیل تھے، قیام پاکستان کے بعد آمریت کے خلاف جو بھی تحریک اٹھی وکلا اس کا ہراول دستہ رہے۔ آپ نے عدلیہ کی بحالی کیلئے تحریک چلائی جس کا مقصد عدالتوں کو آمریت کے چنگل سے چھڑانا، آئین اور قانون کی بالادستی اور انصاف کے بول بالا کیلئے تھی۔ تحریک پاکستان، جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی بحالی میں وکلا کا تذکرہ اس لئے کر رہا ہوں کہ آج بھی وکلا پر بھاری ذمہ داری ہوتی کہ وہ علامہ اقبالؒ کی فکر اور قائداعظم کی جدوجہد کی روشنی میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ وکلا میں چند ایسے افراد بھی ہیں جو آج بھی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بات کرنے والوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ آپ پانامہ کی داستان سے واقف ہیں، پانامہ لیکس میں میرا نام نہیں، میں نے پیش کش کی کہ سپریم کورٹ کے معزز جج کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں مگر کئی ماہ تک جواب نہیں ملا، اپوزیشن نے ٹی او آرز کا مسئلہ بنا لیا، مسئلے کو حل کرنے کیلئے پارلیمانی کمیـٹی بنائی گئی مگر وہاں کوئی لچک نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے معاملے کو گلیوں اور سڑکوں پر لا کر ایسی فضا پیدا کی جائے جس سے سیاست چمکائی جا سکے۔ایک فیصلہ 20اپریل دوسرا 28جولائی کو سامنے آیا جس سے متعلق سب جانتے ہیں۔ چند سوالات ایسے ہیں جو
ماہر قانون ہی نہیں عام شہری کو بھی پریشان کرتی ہیں۔ کیا آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ کہیں پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو، کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے، کیا قومی سلامتی اور دہشتگردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کیلئے خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں،
کیا کبھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جے آئی ـٹی کی نگرانی کی، کسی پٹیشنر نے دبئی کی تنخواہ کی بنیاد پر میری نا اہلی کی درخواست کی تھی۔ کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قوانین کی موجودگی میں مرضی کی تشریح کرے، کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں چار فیصلے سامنے آئے ہوں، کیا کبھی وہ جج صاحبان حتمی فیصلے کے
بنچ میں شامل ہوئے ہوں جو پہلے ہی اپنا فیصلے دے چکے ہوں، کیا ان ججز کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں نہ اس پر بحث ہوئی، نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے، کیا پوری عدالتی تاریخ میں ایسا ہوا نہ صرف نیب کی کارروائی اور ٹرائل کورٹ کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ کے ایسے جج
کو نگران بنا دیا جائے جو اس فیصلے میں خلاف فیصلہ دے چکا ہو،کیا سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں ٹرائل کورٹ کا جج آزادانہ کام کر سکتا ہے، کیا یہ فیصلہ عدلیہ کی آزادی کا علمبردار ہے، کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے۔ وکلا حضرات آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت اندراج مقدمہ کیلئے رجوع
کی مجاز عدالت کونسی ہے،؟یہ اختیار جوڈیشل جج کی عدالت کا ہے جبکہ اس مقدمہ میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ہے۔یہ صرف چند سوالات ہیں ، یہ سوالات ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے، اپنی ریویو پٹیشن میں ان سوالات کو بھی اٹھایا، غلط بنیادوں پر غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے، ہم نے اس فیصلے پر عملدرآمد میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کی، اس کا یہ
مطلب نہیں کہ افسوسناک نظیر بنانے والے اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کر لیا، ایسے فیـصلے پر عملدرآمد کے باوجود انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا، پاکستانی عوام نے اس فیصلے پر ردعمل دیدیا اور مزید آتا رہا ہے۔ یہ فیصلہ بھی بے توقیر ہونیوالے فیصلوں کی الماری میں ڈال دیا گیا ہے۔ صدیوں کا مسلمہ اصول ہے انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہئے،
بدقسمتی سے ایک ایسے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس میں سرے سے انصاف ہوا ہی نہیں، قدم قدم دکھائی دیتا رہا کہ انصاف نہیں ہورہا۔ ایسے فیصلے عدلیہ کے وقار ، اعتماد اور ساکھ پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں، عدلیہ کی بحالی کیلئے پاکستانی عوام اور وکلا نے اپنا لہودیا ہے اور اس سب کے بعد بھی انصـاف کا یہ عالم ہے تو اندازہ لگایا جائے کہ عدلیہ پر اعتماد کی
بحالی کا کیا عالم ہو گا۔ کہنے کو ہم جمہوریت کہلاتے ہیں مگر مجموعی طور پر 4آمروں نے 23برسوں تک ملک پر حکمرانی رہی، ہر آمر کو اوسطاََ 8سال ملے اور ہر منتخب وزیراعظم کو اوسطاََ 2سال ملے، 73کے آئین کی عمر 44سال ہو چکی ہے، اور ان 44سالوں میں 20سال آمر حکمران رہے، ذوالفقار علی بھٹو کو آمر نے پھانسی دیدی، بینظیر جیسی مقبول لیڈر کی کی
حکومت کو دو مرتبہ فارغ کر دیا گیا اور میری تین مرتبہ حکومت ختم کی گئی۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کیوں نہیں لی، اس تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ 70برس کے دوران کوئی ایک وزیراعظم بھی اپنی آئینی معیاد پوری نہیں کر سکا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، ممکن ہے مجھ میں کوئی کمزوری ہو مگر لیاقت علی خان
سے لیکر آج تک کسی کی بھی نہیں بنتی، یہ ہے وہ صورتحال جس کی اصلاح ہونی چاہئے، اسے آپ تبدیلی کہیں یا انقلاب اس مرض کا علاج ضروری ہے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلئے علاج ضروری ہے۔ تاریخ کا دھارا موڑنا ہو گا اگر ایسا نہ ہوا تو وطن عزیز حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔ آج پوری قوم کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے اپنی محبت سے نوازا،۔
بری امام کی بستی اسلام آباد سے داتا کی نگری لاہور تک عوام نے جس طرح میرا استقبال ہوا اس سے حوصلہ ملا۔ میں نے عوام کی آنکھوں میں غصہ بھی دیکھا اور سب کچھ بدل جانے کی امنگ بھی دیکھی۔ آج پاکستانیوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہاہے جو ان کے دادا اور نانا کے ووٹ کے ساتھ کیا جا رہا ہے، قائداعظم نے کہا تھا کہ عوامی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی۔
ہماری عدالتیں آمروں کو شرف قبولیت بخشتی رہیں اور آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دیتی رہی۔ عدالت اور طاقت کے گٹھ جوڑ نے کیسے ملک کو طاقت کے شکنجے میں جکڑے رکھا جس کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔