اسلام آباد (آن لائن ) تحریک انصاف کی غیر ملکی و مبینہ طور پر ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستا میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ کے ذرائع بتانے کی پابند ہے، اور ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اکاؤنٹ کی جانچ پڑتال کا حق حاصل ہے۔
پیر کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی اورغیر ملکی فنڈنگ سے متعلق مسلم لیگ ن کے رہنماء حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے وکیل انور منصور پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ امید کرتا ہوں انور منصور صاحب آپ کی طبعیت اب بہتر ہوگی جس پر تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ طبعیت مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے ،دستاویزات جمع کرائی ہیں تاہم زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا، تحریری معروضات میں سوالوں کے جواب دے چکا ہوں ،اس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈز پر فیصلہ نہیں دے سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ جی بالکل، الیکشن کمیشن یہ کیس نہیں سن سکتا،پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں پورا قانون تبدیل کر دیا گیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کا کہنا ہے اکاؤنٹ رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن اکاؤنٹس نہیں دیکھ سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا موقف ہے رپورٹ جمع کروانے کے بعد آڈٹ نہیں کرا سکتے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ کے ذرائع بتانے کی پابند ہے اس پر انور منصور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہ رہا میں جوابدہ نہیں ہوں، عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق ہر جماعت کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا جواب حتمی ہے
جب کہ الیکشن کمیشن آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں کرے گا۔ انور منصور نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کو نہ چنا جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف مجھے سزا نہ دیں، آپ اپنے موقف سے خود کو الزام سے صاف کریں جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ میرے جواب پر اعتراض سے پہلے وکیل انورمنصور پورا پیرا پڑھیں جب کہ بدنیتی اور فراڈ پر مبنی جواب پر الیکشن کمیشن معاملہ کو دیکھ سکتا ہے
،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جنرل بات کی ہے کسی کو منسوب نہیں کیا۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ عدالت جواب کو شروع سے پڑھے تو فراڈ کا لفظ پی ٹی آئی کے لیے استعمال کیا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اکاؤنٹ کی جانچ کا حق حاصل ہے، الیکشن کمیشن اکاؤنٹینٹ کی رپورٹس کو قبول اور مسترد کر سکتاہے اور کیا اگر چند سال بعد الیکشن کمیشن کو پتہ چلے تو وہ اس کو نظر انداز کر دیگا،
فارن فنڈنگ کی معلومات تو دوسرے ذرائع سے آئیگی ، تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں یہی کررہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرعمران خان کا ڈکلیئریشن غلط نکلے اور ہم معاملہ الیکشن کمیشن بھیجیں تو آپ کی قیادت کا کیا موقف ہوگا، انور منصور نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ادارے کو چھوڑ کر کمیشن کیوں بنانا چاہیے۔
انور منصور نے کہا کہ سیاسی جماعت کے نجی اکاؤنٹس کی تشہیر نہیں کی جاسکتی جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس نجی کیسے ہو سکتے ہیں ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون میں لکھا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے اثاثے ظاہر کئے جائیں جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ قانون میں ایسا نہیں لکھا، جسٹس بندیال نے کہا کہ ہر سال الیکشن کمیشن ان کی شفافیت کو مد نظر رکھ کر پبلک کرتا ہے،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے جس پر انور منصور نے کہا کہ حساب تو سب نے دیناہے ،جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سے فارن فنڈنگ کا پوچھا جائے تو کیا اس کو آڈٹ کہا جائے گا جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا کہنا ہے آڈٹ انکوائری میں نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آڈٹ نہیں کریں گے تو آمدن اور اخراجات ہی رہ جاتا ہے جب کہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا کیس آیا تو اس کو بھی دیکھیں گے
تاہم دیکھنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز لیے ہیں اور اگر فنڈز ممنوعہ ہیں تو کارروائی کون کریگا،حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے غلط دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے، یہ دستاویزات انہوں نے خود تیار کیے اور اس جواب میں ایک بھی دستاویز درست نہیں، فارن فنڈنگ پر جمع کرائی گئے دستاویز کا ہر صفحہ خود تیار کیا گیا، پی ٹی آئی نے اصل فنڈز سے کم فنڈز ظاہر کیے اور کہا گیا ہے کہ حلال کو حرام سے الگ کردیا ہے،
حرام انتظامی طور پر خرچ کیا گیا اور حلال پاکستان بھیجنے کا موقف دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حرام نہیں ممنوعہ کا لفظ ہے، وکیل عمران خان انور منصور نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ میں امریکہ دستاویز بنانے گیا تھا جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ میں نے آپ کے بارے میں ایسا نہیں کہا ، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان دستاویز کو دیکھنے میں مہینے لگ جائیں گے، اکرم شیخ نے کہا کہ جناب کی عقابی نظریں ایسی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دینگی
جب کہ میرا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے خود ساختہ دستاویز ات لگائی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جو بھی فنڈز ہیں وہ فارا کو اس کی معلومات دیتے تھے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ قانون کے مطابق فارا کو تمام معلومات دینا ہوتی ہیں، ہم نے ریکارڈ پرموجود ایک ایک نام کا جائزہ لیا وہ فارا ریکارڈ پر نہیں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انور منصور صاحب کیا درست ہے کہ تمام تفصیلات فارا کی ویب سائیٹ پر ظاہر ہونی چاہیے
جس پر انور منصور نے کہا کہ 50 ڈالر سے کم معلومات فارا کی ویب سائیٹ پر نہیں دی جاتی، عدالت میں وہ لسٹ جمع کرائی ہے جو رقم پاکستان آئی ہے، حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ عدالت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے، فارن فنڈز کا معاملہ حساس ہے جب کہ عدالت نے اس ملک کو صحیح راستے پر لگانا ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں زمہ داریوں کا احساس ہے اور اس کو قانون کے مطابق ادا کریں گے، اکرم شیخ نے کہا کہ ملکی سلامتی کا سوال ہے، عدالت ، وزارت داخلہ اور نیب سے تحقیقات کی استدعا کررکھی ہے،
عمران خان نے بادی النظر میں غلط ڈکلیئریشن الیکشن کمیشن میں جمع کرائے، جو دستاویزات خود ساختہ جمع کروائی گئیں ان کے نتائج عدالت جانتی ہے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم فارا کو معلومات نہ دینے پر اس ریکارڈ کو بوگس کہہ دیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ 100 فیصد یہ دستاویزات گمراہ کن اور جعلی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ان کا کہنا ہے قابل اعتراض فنڈز باہر خرچ کیے، پاکستان میں آنے والے فنڈز جائز ہیں، کیا انکا یہ موقف درست ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آپ جماعت پر پابندی مانگ رہے ہیں اور نہ ہی فنڈز ضبطگی جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت کے سامنے مختصر کیس لایا ہوں، عدالت کیس کے لئے کافی و شافی ہے جب کہ میں صرف عمران خان کی نااہلی مانگ رہا ہوں، پہلے دی گئی دستاویز میں 3 لاکھ 5 ہزار ڈالر وصولی قبول کی اور اب 94 ہزار ڈالر بھیجنے کا کہا گیا ہے،پی ٹی آئی کی جمع کردہ لسٹ میں پہلے اقلیتی کا نام شامل تھا اب نہیں اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار
جو ممنوعہ فنڈز اکٹھے کئے گئے تھے وہ پی ٹی آئی کے لئے حاصل کئے گئے، ان ممنوعہ فنڈز کا کیا کیا گیا جس پر انور منصور نے کہا کہ ان ممنوعہ فنڈز کے بارے میں عمران خان نہیں جانتے۔دوران سماعت اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان صرف پاک فنڈز بھیجے گئے، عمران خان نے الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ دیا کہ اس نے کوئی ممنوعہ فنڈز نہیں لئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس حقیقت کو جاننے کے لیے ممنوعہ فنڈز کی تحقیقات کی ضرورت ہوگی جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ تحقیقات کس چیز کی جناب، اعتراف تو یہ خود کررہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں ممنوعہ فنڈ ریزنگ ہوئی تو عمران کے سرٹیفکیٹ کو کیسے غلط قرار دیں ، بعد ازاں عدالت نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔