اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے پانامہ عمل درآمد کیس کی سماعت مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے سماعت کے دورام ریمارکس دیئے کہ گارنٹی دیتے ہیں کہ وزیراعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے،کیس میں ردعمل دیکھے بغیر صرف قانون پر چلے ہیں اب بھی صرف قانون کا راستہ ہی اپنائیں گے، تمام افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔، درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کا بھی خیال رکھیں گے،
فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہیں آپس میں جو کریں ہمیں کچھ نہ کہیں، ہر چیزپر عدالت نے نظر رکھی ہوئی ہے، جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے لہروں کے خلاف تیرنا پڑا تو تیر لیں گے، مریم کو بینی فیشل مالک تسلیم بھی کرلیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا، مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے، دیکھنا ہوگا 90کی دہائی میں بچوں کا ذریعہ آمدن تھا یا نہیں، ذریعہ آمدن ثابت نہ ہوا تو اثر وزیراعظم پر ہوگا، پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، اسحاق ڈار کے خلاف کافی مواد ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ علی ڈار نے اسحاق ڈار کو تحفے میں رقم دی، اثاثوں میں آٹھ سو ملین کا اضافہ حیران کن ہے، پانچ سال میں اثاثے 9 سے 837 ملین کیسے ہوگئے؟جمعہ کو پانامہ عمل درآمد کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران جے آئی ٹی کا والیوم دس کمرہ عدالت میں کھولا گیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ والیوم دس میں جے آئی ٹی خطوط کی تفصیل ہوگی۔ والیوم دس سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی۔ ہر کام کھلی عدالت میں شفافیت سے کرنا چاہتے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی سچائی بھی سامنے لانا چاہتے ہیں۔ رات کو آپ سو بھی سکے تھے یا نہیں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بات اپنے تک ہی رکھنا چاہتا ہوں۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ والیو دس خواجہ حارث کے کہنے پر کھول رہے ہیں والیوم دس خواجہ حارث سے پہلے کسی کو نہیں دکھائیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کی صوابدید ہے جس کو چاہے دکھائیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مطمئن ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کے 23جون کے خط کے جواب میں کل والا خط ملا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنکشن قائم ہوگیا تو کوئی مسئلہ نہیں بی وی آئی کے ثبوت حتمی نہیں۔ عدالت نے کہا کہ سوال پوچھا تھا شواہد پر مبنی ٹرائل کے لئے ریفرنس بھجوادیا جائے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میرا جواب مزید تحقیقات کا ہے۔ خطوط کو بطور شواہد لیا جاسکتا ہے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سوال پوچھا تا قطری شواہد دینے کے لئے تیار ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہ سکتا۔ قطری کو ویڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی تھی۔2004 تک حسن اور حسین کو سرمایہ ان کے دادا دیتے تھے۔ وکیل نے کہا بچوں کے آمدن سے زائد اثاثوں پر نواز شریف پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ عدالت نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کے اثاثے آمدن کے مطابق نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نواز شریف نے اسمبلی میں کہا تھا یہ ہے آمدن کے ذرائع نواز شریف نے کہا تھا منی ٹریل اور شواہد موجود ہیں۔
عدالت نے کہا کہ چند دستاویزات سپیکر کو پیش کئے گئے جو کبھی سامنے نہیں آئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے فلیٹس اور بچوں کے ذرائع آمدن بھی بتائے وزیراعظم نے ہمارے کا لفظ استعمال کیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم کے ہوں ہمارے کا لفظ خاندان کے لئے استعمال ہوا تھا جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا وزیراعظم خاندان سے باہر ہیں؟ عدالت نے کہا کہ مریم بینی فیشل مالک ہیں یہ کیپٹن صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں
اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی تو عوامی نمائندگی ایکٹ کا اعلان ہوگا۔ سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہونے پر اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی طرف سے کافی مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قانون کے اندر رہتے ہوئے لہروں کے خلاف تیرنا پڑا تو تیر لیں گے۔ طارق حسن نے 34 سالہ ٹیکس ریکارڈ عدالت میں پیش کیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اتنا بڑا ڈبہ لیکر آئے ہیں یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنا رہے گا۔
طارق حسن نے نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اتنا بڑا ڈبہ لانے کا مقصد میڈیا کو دکھانا ہے؟ طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ڈبوں میں میرا ڈبا چھوٹا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ کا ایک نکتہ یہ تھا جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ عدالت نے کہا کہ تحقیقات کے دوران آپ اثاثوں میں اضافے پر مطمئن نہیں کرسکے تھے۔ یہ آپ کے خلاف نئی قانونی چارہ جوئی کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ایک منٹ کے لئے حدیبیہ پیپر ملز کو چھوڑ دیتے ہیں اسحاق ڈار کے خلاف کافی مواد ہے آپ کا موقف ہے حدیبیہ ملز دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کا ٹیکس ریکارڈ نہ ہونے کا بھی مسئلہ تھا۔ اب اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ سامنے آگیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پانچ سال میں اثاثے 9 سے 837 ملین کیسے ہوگئے؟ عدالت نے کہا کہ کیا دبئی کے شیخ سے ملنے والی تنخواہ اور تعیناتی کا ریکارڈ دیا ہے؟
کیا دبئی کے شیخ کے تین خطوط کے علاوہ کوئی اور مواد ہے؟ وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار کھلی کتاب کی طرح ہیں کچھ نہیں چھپاتے۔ اسحاق ڈار ہمیشہ سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں مجھے یہ دستاویزات جمع کرانے کے لئے نہیں کہا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے اثاثوں کا حساب ہورہا ہے کیا آپ کو ریکارڈ پیش نہیں کرنا چاہئے تھا۔ طارق حسن نے کہا کہ اسحاق ڈار چالیس سال سے پروفیشنل اکائونٹنٹ ہیں گوشواروں میں اپنی غیر ملکی آمدن بھی ظاہر کردی ہے۔
اسحاق ڈار اپنی اسکروٹنی کراکرا کر تھک چکے ہیں اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے بلا وجہ احتساب عدالت میں گھسیٹنا قبول نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یہ ڈرا مائی کہانی ہے آپ چاہتے ہیں یہ ڈرامے کی طرح ختم ہوجائے تمام تحریری مواد کا جائزہ لیں گے۔ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے کہا کہ اسحاق ڈار جے آئی ٹی میں بطور گواہ پیش ہوئے تھے یہاں ایسا لگتا ہے اسحاق ڈار ملزم ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ علی ڈار نے اسحاق ڈار کو تحفے میں رقم دی۔
عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق اسحاق ڈار نے رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سات سال میں اثاثوں میں آٹھ سو ملین کا اضافہ حیران کن ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ طارق صاحب آپ نے اسحاق ڈار کے ساتھ انصاف کردیا ہے ہمیں بھی ڈرا صاحب کے ساتھ انصاف کرنے دیں آپ کے تحریری دلائل اور دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم کہہ دیں آپ کے دلائل سے مطمئن ہوگئے
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیس میں ردعمل دیکھے بغیر صرف قانون پر چلے ہیں اب بھی صرف قانون کا راستہ ہی اپنائیں گے۔ تمام افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔ درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کا بھی خیال رکھیں گے۔ فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہیں آپس میں جو کریں ہمیں کچھ نہ کہیں ہر چیزپر عدالت نے نظر رکھی ہوئی ہے۔ آپ کے جانے کے بعد بھی کام کررہے ہوتے ہیں اس سے زیادہ اور ہم کیا کریں۔ زیادہ تفصیلات سے اچھی کہانی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے تمام فریقین کو تمام مواقع دیئے ہیں عدالت کے پاس کچھ نیا مواد بھی سامنے آیا ہے۔ عدالت قرار دے چکی ہے جے آئی ٹی سفارشات پر عمل ضروری نہیں تحریری گزارشات ایک دن میں جمع کرادوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟ اکبر تارڑ نے کہا کہ وہ حدیبیہ کیس اپنی مرضی سے نہیں کھول سکتے ہیں نیب کے وکیل نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں اپیل دائر کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سوچنے کا عمل کتنا عرصہ چلے گا۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ایک ہفتے میں فیصلہ کرلیں گے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب میں کہا کہ نواز شریف عدالت اور قوم کے سامنے صادق اور امین نہیں رہے ایف زیڈ ای کو نواز شریف نے ظاہر نہیں کیا نواز شریف نے ورک پرمٹ اور چیئرمین ہونا بھی چھپایا نواز شریف نے تنخواہوں کی رسیدیں بھی چھپائیں جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دوسری طرف کا موقف ہے تنخواہ کبھی نہیں لی گئی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ تنخواہ وصول کرنے کی دستاویزات موجود ہیں عدالت نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کا اطلاق ہوا تو کیا معاملہ الیکشن کمیشن نہیں جائے گا؟ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنا آرٹیکل 62,63 کے زمرے میں آتا ہے الیکشن کے بعد بھی ایف زیڈ کمپنی کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف نے گلف ملز کی 33 ملین فروخت کا بھی جھوٹ بولا۔
دبئی حکومت نے کہہ دیا بارہ ملین درہم منتقل نہیں ہوئے جدہ ملز کی 63 ملین ریال میں فروخت کا بھی جھوٹ بولا گیا۔ جدہ ملزسے 42 ملین ریال ملے جو تین حصہ داروں میں تقسیم ہوئے تھے لندن فلیٹس حاصل ہوئے تو بچوں کی عمریں کم تھیں نواز شریف کے بچوں کا ذریعہ آمدن نہیں تھا نواز شریف نے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والے پر ملازمت کی پابندی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ معاملہ مفادات کے ٹکرائو کا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ججز پر تو آئین میں واضح پابندی موجود ہے نعیم بخاری نے کہا کہ حسین نواز نے نواز شریف کو ایک ارب سے زائد کے تحائف دیئے تمام رقم نواز شریف کو ہل میٹل کے ذریعے ملی ہل میٹل سے ملنے والی رقم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم پر کوئی واضح پابندی عائد نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ یہ سب معاملات جے آئی ٹی میں سامنے آئے ہیں کیا دوسرے فریق کو سرپرائز دیا جاسکتا ہے؟
مریم کو بینی فیشل مالک تسلیم بھی کرلیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا درخواست میں آپ نے مریم کو زیر کفالت ہونے کا کہا تھا مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ 1993 میں مریم کی کوئی آمدن نہیں تھی دیکھنا ہوگا 90کی دہائی میں بچوں کا ذریعہ آمدن تھا یا نہیں۔ ذریعہ آمدن ثابت نہ ہوا تو اثر وزیراعظم پر ہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف بطور رکن اسمبلی اہل نہیں رہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جے آئی ٹی بنی تو سب نے کہا کہ آزادانہ کام نہیں کرسکے گی۔ جے آئی ٹی نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر کام کیا۔ ممکن ہے کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں مشکل حالات میں بھی جے آئی ٹی نے زبردست کام کیا۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے ڈبے میں سو روپے کا چندہ ڈالا ہے عدالت نے بار بار منی ٹریل مانگی جو نہیں آئی نواز شریف ‘ اسحاق ڈار کو اقامے پسند ہیں تو دبئی چلے جائیں۔ یو اے ای میں تنخواہ کلیئر کئے بغیر کمپنی بند نہیں ہوسکتی۔
نواز شریف نے دبئی والوں کو بھی چونا لگایا۔ نواز شریف نے دبئی والوں کو نہیں بتایا کہ پاکستان میں وزیراعظم ہیں۔ جس طرف دیکھو بے نامی دار ہیں اسحاق ڈار نے عالمی بینک کو بھی چونا لگایا اور پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑا میری درخواست ہی آرٹیکل 62,63 کی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اپنا 20اپریل والا فیصلہ بھی پتا ہے اور دلائل بھی سن لئے ہیں آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ وز یراعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے۔ شیخ رشید کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے بھی دلائل دیئے ۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔