اسلام آباد(نیوزڈیسک)اس صدی کی سب سے حیرت انگیز داستان،شریف فیملی کی لوہے کی بھٹی بڑی بزنس ایمپائر میں کیسے تبدیل ہوئی؟پاک آرمی کے سابق افسر نے بھانڈہ پھوڑ دیا، تفصیلات کے ماطبق پاک فوج کے سابق کرنٹ اکرام اللہ نے نے معروف قومی روزنامے میں شریف فیملی کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں اور شریف فیملی کی لوہے کی بھٹی سے بڑی بزنس ایمپائر میں تبدیل ہونے کو اس صدی کی سب سے
حیرت انگیز داستان قراردیتے ہوئے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں معروف کالم نگار کرنل (ر) اکرام اللہ اپنے تازہ ترین کالم میں لکھتے ہیں شریف خاندان آج کل جس گرداب سے گزر رہا ہے وہ برصغیر میں 20 ویں اور حالیہ 21 ویں صدی کی ڈرامائی داستانوں میں ایک ایسی کہانی ہے جس کی مثال شاید برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں لاکھ ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ ضلع امرتسر کے ایک چھوٹے سے گاؤں جاتی امرا سے میاں محمد شریف نامی اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور پہنچے اور ریلوے اسٹیشن کے سامنے مشہور سرائے کے علاقہ میں لوہے کی ڈ ھلا ئی کا کام شروع کیا جو آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے اتفاق برادرز فونڈری کے نام سے روشناس ہوا۔ لیکن اس خاندان کی کاروباری ترقی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب 1970ء کی دہائی کے آخر میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد صدر ضیاء4 الحق نے میرے دوست جنرل غلام جیلانی کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا تو انہوں نے میاں محمد شریف کے بڑے بیٹے نواز شریف کو پنجاب کی مجلس شوریٰ کا ممبر نامزد کیا۔ میری چونکہ جنرل جیلانی سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ نے نواز شریف کو کس بناء پر صوبائی مجلس شوریٰ میں نامزد کیا ہے تو وہ بولے ’’نواز نوجوان لڑکا ہے اسے سیاست کا بھی شوق ہے کاروبار میں بھی چار پیسے کما رہا ہے
ایسے نوجوان ہماری حکومت کے لئے مفید ا ور کا ر آ مد ہیں اس کے کچھ عرصہ بعد نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ بنا دیئے گئے۔اتفاق فونڈری کی ترقی اور سیاست کے میدان میں صوبائی وزیر خزانہ سے وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر وزیراعظم پاکستان شریف خاندان کے سیاسی و تجارتی سفر کا آغاز تھا جو آج اپنے عروج پر پہنچ کر پانامہ لیکس کی بلندیوں اور لندن کے محلات تک پہنچ کر بالاآخر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے زیر تفتیش بن گیا ہے۔
اس دورانیہ میں لاہور سے مکہ‘ مکہ سے دبئی‘ دبئی سے قطر اور قطر سے لندن کا تجارتی سفر اس داستان کا ایک حسین رومانوی حصہ بھی بن چکا ہے۔ جس میں ایک ہی نسل میں میاں محمد شریف کے صاحبزادے دیگر ممالک کے شاہی خاندانوں سے اٹھنے بیٹھنے اور تجارتی حصہ دار ہونے کے ناطے خود بھی شہزادے کہلانے لگے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ شریف خاندان نے اپنے لاہور کے قیام کے لئے ضلع امرتسر کے
جاتی امراء4 کی یادیں تازہ رکھنے کیلئے ضلع لاہور میں رائے ونڈ کے مقام پر سینکڑوں ایکڑ پر محیط پاکستانی جاتی امرا کے نئے محلات تعمیر کر دیئے ہیں تو ان کے بچے اپنی جدید تعلیم کے حصول کیلئے لندن میں رہائش کیلئے محلات کیوں نہ خریدیں۔ سپریم کورٹ میں کئی ماہ چلنے والے پانامہ لیکس کے تاریخی مقدمہ میں یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی کہ کروڑوں بلکہ اربوں کی دولت نے دبئی‘ جدہ‘ قطر اور لندن کا سفر
کیسے کیا اور ان تمام جگہوں پر اتنی تجارتی کارروائیوں کا ریکارڈ کدھر ہے۔ باآخر قطری شہزادے کا ایک خط عدالت میں پیش کیا گیا ہے جس نے اس خط کے مندرجات کی GENUINENESS کی تحقیقات کے لئے ایک چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (JTI) مقرر کر دی ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز دو دن اس JIT کے سامنے پیش ہوئے۔ لیکن قطری شہزادے کے خط کا الجھا ہوا مسئلہ تادم تحریر طے نہیں ہو پایا۔ JIT کی طرف سے قطری شہزادے کو ٹیم کے سامنے پیش ہو کر تحقیقات میں مدد اور تعاون کی
درخواست کے باوجود شہزادے نے معذرت کر لی ہے لیکن شہزادے آخر شہزادے ہوتے ہیں۔ جنہیں اپنی دولت کا حساب کتاب خود بھی حقیقتاً معلوم نہیں ہوتا چنانچہ قطری شہزادے کا خط سارے مقدمے کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے اس لئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے JIT نے اہتمام حجت کے لئے قطری شہزادے کو ایک دفعہ پھر طلب کیا ہے۔
مجھے ایسے لگتا ہے کہ شریف خاندان کے شہزادے ان کے نام سے ہونے والی تجارتی سرگرمیوں اور پاکستان کے اندر یا باہر ان کے نام پر خریدی گئی پراپرٹی کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے مختلف اوقات دیئے گئے بیانات میں تضادات پائے گئے جس کی تحقیقات کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے اپنے 3/2 فیصلے میں JIT کو مزید تحقیقات کرنے کے لئے مقرر کیا ہے جو نہایت تندہی سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہے اور اگرچہ JIT کی طرف سے تحقیقات کا عمل جاری ہے
اور بہت سے مزید متعلقہ شخصیات کو بھی متعلقہ سوالات کے بارے میں روشنی ڈالنا باقی ہے ان میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام باقی ہیں جن کے بیانات سے کئی پردے اٹھائے جائیں گے لیکن ایک بنیادی بات جس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا یہ ہے کہ لندن میں زیر تفتیش قیمتی پراپرٹی کی ملکیت وزیراعظم اور ان کے خاندان کے متعلقہ افراد ابتدائی انکار کے بعد بالاآخر تسلیم کر چکے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ مقدمہ چونکہ JIT کے سامنے زیر تفتیش ہے اس لئے اس میں کسی طرح کی بے جا دخل اندازی یا تنقید غیر مناسب ہے۔