اسلام آباد( آن لائن ) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سچ کی تلا ش کے لئے کسی بھی حد تک جانا پڑا جا ئیں گے ،سچا ئی کی کھو ج لگا نے کے لئے انکو ائر ی یا تحقیقات کی ضرورت پڑی تو ضرور کر ائیں گے ، ہما ر ے سسٹم میں سچ کی بڑی اہمیت ہے ، جہا ں سچ ہو اور فریب نہ ہو تو اسے سامنے آ نا چاہئے
جبکہ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق زیر التواء مقدمات اور ہائی کورٹ کے فیصلے کا ریکارڈ آئندہ سماعت پر جمع کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے عمران خان کی نااہلی اور آف شور کمپنیوں سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کی ، مقدمہ کی سماعت سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل ڈی جی قانون الیکشن کمیشن ملک مجتبیٰ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوتے اس پر ڈی جی قانون الیکشن کمیشن نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 63کے تحت دائرہ اختیار طے کیا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے دائرہ اختیار کیخلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا اس پر عدالت نے الیکشن کمیشن سے فنڈنگ سے متعلق تحریک انصاف کے زیر التواء مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے آئند سماعت پر ہائی کورٹ کے فیصلے کی تفصیلات بھی جمع کرانے کا حکم دیدیا۔تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لندن فلیٹ فارن انکم سے خریدا گیاعمران خان کے پاس 2002تک کوئی عوامی عہدہ نہیں تھا، یکم مارچ 2000کو ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا گیا
،30ستمبر 2000کو لندن فلیٹ ظاہر کرکے ٹیکس ادا کیا،ایمنسٹی سکیم کے تحت 2لاکھ چالیس ہزار کا ٹیکس ادا کیا،1983میں ایک برطانوی پاؤنڈ پاکستانی بیس روپے کے برابر تھا،نان ریزیڈنٹ کا تعین انکم ٹیکس آفیسر متعلقہ شخص کے پاسپورٹ ریکارڈ سے کرتا ہے، عمران خان نے سات مئی 2003میں56245اہلیہ کو دیئے جو کہ نو لاکھ ڈالر بنتے تھے، لندن فلیٹ آسٹریلیا کمائی سے لیا پاکستان میں ظاہر نہیں کیے، نیازی سروسز کی مکمل مالیت نو پاؤنڈ تھی عمران خان کا فلیٹ کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں تھااس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا آف شور کمپنی کا کوئی آڈٹ ہوتا ہے، کیسے معلوم ہوگا آف شور کمپنی کس کی ملکیت میں ہے، اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کا ایک مقصد ملکیت چھپانا اور دوسرا ٹیکس بچانا ہوتا ہے، 2002کے نامزدگی فارم میں لندن فلیٹ ظاہر کیا، عوامی عہدہ حاصل کرنے سے پہلے لندن فلیٹ ظاہر کردیا تھا، اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے 1997میں بھی الیکشن لڑا تھا عمران خان کے 1997کے انتخابات میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی بھی ریکارڈ پر لائے جائیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 1997کے انتخابات غالباً عمران خان ہار گئے تھے، آپ کا کیس یہ ہے کہ نیازی سروسز ظاہر نہیں کی گئی، ضرورت محسوس ہوئی تو1997میں جمع کرائے گے کاغذات نامزدگی بھی طلب کر لیں گے لیکن پتہ نہیں اتنا پرانا ریکارڈ موجود ہو گا بھی یا نہیں جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فلیٹ پر دلائل مکمل کر لیے، ہمیں بتائیں کہ کونسا قانون بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کا کہتا ہے،فیصل عرب نے کہا کہ نیازی سروسز میں کتنے شیئر ہولڈرز ہیں،
نعیم بخاری نے کہا کہ تین شیئر ہولڈرز تھے تینوں نے تین پاؤنڈز دیئے اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جاننا چاہتے ہیں کیسے آف شور کمپنیاں بنی کیا اثاثہ جات ہیں، جسٹس بندیال نے کہا کہ کیا انکم ٹیکس قانون کے تحت پاکستانی کو بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ جی بالکل انکم ٹیکس قوانین میں ہے، جسٹس بندیال نے کہا کہ ذرا مزید تیاری کریں شیخ صاحب کا کیس ہے نیازی سروسز ظاہر نہیں کی گئی،چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ صاحب کا کہنا ہے نیازی سروسز آپ نے کہیں بھی ظاہر نہیں کی، اس بنیاد پر عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے، نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان نیازی سروسز کے مالک تھے، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ممکن ہے نیازی سروسز کے کوئی دوسرے اثاثہ جات ہوں جو چھپائے جا رہے ہوں، اسی لیے پوچھا کوئی دستاویزات ہیں جو آف شور کمپنیوں کے اثاثوں کی تفصیل بتائیں ؟نعیم بخاری نے کہا کہ اثاثے کم بتائے یا چھپائے تعین ایف بی آر نے کرنا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صادق اور آمین کا فیصلہ ایف بی آر نے نہیں کرنا، جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ اگر نیازی سروسز شیل کمپنی تھی تو اسکا ریکارڈ آپ ہمیں دیں گے، نعیم بخاری نے کہا کہ مئی 2003میں لندن فلیٹ فروخت کردیا، جسٹس بندیال نے کہا کہ آپ بنی گالہ اراضی کے تمام ریکارڈ کا تاریخ کے حساب سے بتائیں
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ اراضی کی قیمت چیک کے ذریعہ ادا کی اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ادا کردہ رقم 4 کروڑ 35 لاکھ سے زائد بنتی ہے کیا اراضی کی کوئی اضافی رقم ادا کی گئی جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ 14 اپریل 2003 کو فلیٹ کی فروخت مکمل ہوئی کرایہ دار سے مقدمہ بازی چلتی رہی ۔جون 2002 تک بنی گالہ کی رقم ادا کرنا تھی جو نہ کر سکا اسوجہ سے رقم ادھار لینا پڑی، چیف جسٹس نے کہا کہ مالکان کو رقم دینے کے 9 ماہ بعد بھی راشد صاحب کے اکاونٹ میں کچھ رقم آئی، راشد صاحب نے خود تو رقم ادا نہیں کی، عمران خان نے کہیں نہیں کہا پہلے راشد نے رقم ادا کی پھر جمائما سے لی نعیم بخاری نے کہا کہ نہیں ایسا موقف نہیں ہے، جمائما خان کو عمران خان نے زائد رقم ادا کی تھی، جمائمہ خان سے بعد میں آنے والی ر قم اضافی رقم تھی، بنی گالہ اراضی اہلیہ کیلئے خریدی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رقم حساب کتاب میں برابر نہ ہوئی تو کیا کریں گے، نعیم بخاری نے کہا کہ اس کو تو برا حساب کتاب ہی کہہ سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ برا حساب کتاب کیا یہ اتنا سادہ ہے ہم نے جواب کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ لگایا ہے جس کا مقصد ہے کہ رقم دینے والے کو معلوم ہو ،
بنی گالہ اراضی کی رقم ادائیگی معاہدے میں توسیع کی گئی جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بنی گالہ اراضی کی خریداری کے بعد بھی رقم لی گئی، دستاویز کی پہلی دو انٹریاں ہی ادائیگی ہو سکتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ راشد علی خان پوسٹ آفس کا کام کر رہے تھے ، راشد علی نے جمائما سے رقم وصول کرکے زمین کے مالک کو دی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بنی گالہ اراضی کی ادائیگی کے بعد رقم آنا مسئلہ ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ 29 جولائی 2003 میں جمائما سے آخری رقم وصول ہوئی، ہمیں معلوم کر کے بتائیں زمین کے انتقال کااندراج کب ہوا جون 2004میں عمران خان کی جمائمہ سے شادی ختم ہوئی، انتقالات 2004 کے بعدجمائماکے نام ہونے کی معلومات بھی فراہم کریں، نعیم بخاری نے کہا کہ سر یہ تو کوئی مسئلہ نہیں، بے نامی کالفظ جمائماکاہے، عمران خان کہتے ہیں کہ اراضی جمائماکی تھی، عمران خان نے اراضی جمائماکودے دی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ کیاجائیداد تحفہ دینے کی کوئی دستاویزات ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ یہ مسئلہ تومیاں بیوی کاہے، جسٹس بندیال نے کہا کہ کاغذات ہمیں دیکھنے تو چاہیے،نعیم بخاری نے کہا کہ نیازی سروسز کے اثاثے نہیں چھپائے گئے، بنی گالہ اراضی معاملے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے،رویونیو ریکارڈ بھی وضاحت دیتا ہے، اکرم شیخ نے کہا کہ پیش کیے گئے ٹیئرز دس سال پرانے ہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پھر آپ کا کیس سول کورٹ بھجوا دیتے ہیں،اکرم شیخ نے کہا کہ باہر سے پیسے آنے کی مکمل تفصیل نہیں دی گئی،
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پیسہ باہر سے لانا بہتر ہے یا ملک باہر لے جانا بہتر ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ رقم جمائما خان کی جانب سے نہ آنے کا اہم نقطہ اٹھایا ہے، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ آج جمائما سے تمام رقم کی ادائیگی کی تفصیلات حاصل کرنے کا کہیں گے، اکرم شیخ نے کہا کہ راشد خان آج خیبر بنک کا ڈائریکٹر ہے، راشد خان کے اکاونٹ میں رقم آنے کاریکارڈ واضح نہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے اس بارے معلومات لیناہوں گی،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اہم مقدمہ ہے سوال اٹھارہے ہیں جوابات دیناہوں گے، یہ درخواست گزار کے سوال نہیں عدالتی سوال ہیں، نعیم بخاری مجھے یقین ہے آپ عدالتی سوال سمجھ گئے ہوں گے، راشد علی خان کے بیان حلفی میں جمائماسے زائد رقم کاذکر نہیں،
نعیم بخاری نے کہا کہ جی میں نے بھی نوٹ کیاہے چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن بھی خود ہی لے آئیں، سچ کی تلا ش کے لئے کسی بھی حد تک جانا پڑا جا ئیں گے ،سچا ئی کی کھو ج لگا نے کے لئے انکو ائر ی یا تحقیقات کی ضرورت پڑی تو ضرور کر ائیں گے ، ہما ر ے سسٹم میں سچ کی بڑی اہمیت ہے ، جہا ں سچ ہو اور فریب نہ ہو تو اسے سامنے آ نا چا ہئے بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث کیس کی مزید سماعت آئند ہ 30مئی تک ملتوی کردی