واشنگٹن /اسلام آباد /نئی دہلی ( آئی این پی)بھارت کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر حملے کے دعوے اور انڈین ائیرچیف کی دھمکی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا، پاک فضائیہ نے سیاچن گلیئشیر کے قریب فضائی مشقوں کا آغاز کردیا ۔امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کی
ایک چوکی پر حملے کے دعوے اور انڈین ائیرچیف کی دھمکی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے ۔۔بھارتی فوج کے ترجمان نے منگل کو دعوی کیا تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر نوشیرا سیکٹر میں پاکستانی فوج کی ایک چوکی کو نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا ہے۔لیکن پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس دعوے کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔بھارتی فوج کے اس دعوے کے بعد بدھ کو پاکستانی فضائیہ نے سیاچن گلیئشیر کے قریب فضائی مشقوں کا آغاز کیا اور اس موقع پر پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل سہیل امان نے بھی ایک میراج طیارہ اڑیا۔پاکستانی جیٹ طیاروں نے سیاچن کے قریب پروازیں کیں تاہم بھارتی فضائیہ کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کے جیٹ طیارے اس کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوئے۔سیاچن کے قریب سکردو کے علاقے میں پاکستانی فضائیہ کے اڈے کا شمار ملک کی فارورڈ بیسز میں ہوتا ہے۔ ائیر چیف مارشل نے سکردو میں واقع اس فضائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دشمن کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فضائیہ ملکی سرحدوں کے تحفظ کے لیے تیار ہے، ائیر چیف مارشل نے کہا کہ یہ موسم گرما کی معمول کی فضائی مشقیں ہیں تاہم ان کے بقول فضائیہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے سابق ائیر مارشل شاہد لطیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سکردو کا شمار پاکستان کی اہم فارورڈ آپریشنل بیسز میں ہوتا ہے۔اگر(بھارت) نے اس علاقے میں کوئی حرکت کرنی ہے تو انھیں معلوم ہو کہ اسکردو میں پاکستانی بیس کو متحرک کر دیا گیا ہے تو اس سلسلے میں اسکردو کی ایک اہمیت ہے۔دریں اثنا منگل کو امریکہ کے ڈیفنس انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر لفٹیننٹ جنرل ونسنٹ اسٹوارٹ نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے علاوہ پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔اس بارے میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب جب کہ ایک امریکی جنرل نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے تو ان کے بقول پاکستان کو اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سطح پر اٹھانا چاہیئے۔
میرا خیال ہے کہ اگر امریکن انٹیلی جنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بھارت ایک محدود کارروائی کی تیاری کر رہا تو یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ میرے خیال میں ہمیں امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتانا چاہیے کہ یہاں جنگ کا خطرہ ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ ستمبر سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ بانڈری پر صورت حال کشیدہ ہے اور دونوں جانب سے فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے میں نا صرف سکیورٹی فورسز کے اہلکار بلکہ عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔ستمبر 2016 میں بھارتی کشمیر میں ایک فوجی ہیڈکوارٹر پر مشتبہ دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں کم از کم 18 بھارتی فوجی مارے گئے تھے اور بھارت کا الزام ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تھا۔