اسلام آباد(آن لائن)چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے غیر قانونی گردوں کی فروخت سے متعلق از کود نوٹس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد پولیس نے 53 صحافت پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی دارلحکومت کے علاوہ کشمیر، گلگت بلتستان میں بھی گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ پنجاب کے کئی ایسے گاؤں ہیں جہاں لوگوں کا ایک گردہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعضا کی غیرقانونی پیوندکاری معاشرے کا بہت بڑا ناسور ہے اور گردے دینے والے ڈونر استحصال کا شکار ہیں اس پر ایس ایس پی اسلام ساجد کیانی نے کہا کہ گردہ دینے اور لینے والوں کو جعلی رشتہ دار ظاھر کیا جاتا ہے۔ گھروں کے اندر چھاپے مار سکتے ہیں لیکن رجسٹرڈ ادارے یہ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف کاروائی کے اختیار ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ایسے اداروں کے خلاف کاروائی کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے اور اس معاملے میں قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ اس غیر قانونی کاروبار کو روکا جا سکے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک بہٹ بڑا مسئلہ ہے اس کے لئے ادارے مل جل کر کام کریں۔ ساجد کیانی نے کہا کہ گردوں کی غیرقانونی خرید و فروخت روکنے کا آرڈیننس 2009 اسلام آباد میں لاگو نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کام کی تعریف کرتے ہیں آپ نے اچھا کام کیا ہے آپ نے اس معاملے پر جامع رپورٹ تیار کی لیکن مزید کام کی ضرورت ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کے ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کی رپورٹ پر تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے جبکہ پولیس کو ہدایت کی ہے کہ گرفتار ملزمان کے خلاف جلد از جلد چالان عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔