اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں نیب میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران نیب نے خلاف ضابطہ ترقیوں اور تعیناتیوں کا اعتراف کر لیا ہے ، جبکہ عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی ہے اور چیئرمین نیب کو ہدایت کی ہے کہ خلاف ضابطہ بھرتی ہونیوالے 9 افسروں کو عدالت کے آپشن سے آگا ہ کر یں ، منگل کو کیس کی سماعت مکمل کر کے بدھ
کو کیس کا فیصلہ سنا دیں گے ۔ کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل بنچ نے کی ، دوران سماعت نیب کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ ابتدا میں 629تعیناتیاں ہوئی ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ میں 101کیسز میں قواعد کی خلاف ورزی کا کہا گیا لیکن 48کیسزمیں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ، 561پروموشن کے کیسز ہیں سیکریٹر ی اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 137میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ان افسران میں سے 35 ریٹائرڈ ہو چکے ہیں جبکہ 4کے علاوہ 98میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ پہلی فرصت میں ان 48افسران کو فارغ کر دیں ،اب تک ان افسران کو فارغ کیوں نہیں کیا گیا ؟ تعلیمی قابلیت پر پورا نہ اترنے والوں کو نیب میں کیسے تعینات کر دیا گیا؟ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ہم فارغ نہیں کر سکتے اس کیلئے کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا اس حوالے عدالت حکم جاری کردے اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ ہم آرڈ ر جاری کردیں گے ہمیں ایسا آرڈر جاری کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو گی ،48کیسز کو ڈی نوٹیفائی کر دیں ، اگر تعیناتیوں سے متعلق عدالتی فیصلہ لاگو ہوا تو آدھے سے زیادہ افسر فارغ ہو جائیں گے ، نیب میں ٹرانسفر اور ڈیپوٹیشن پر عدالتی احکامات
کی خلاف ورزی ہوئی ہے ،ہم نیب کو خود چلانے کا ارادہ نہیں رکھتے صرف مطلوبہ اہلیت کے حامل افسران ڈیپوٹیشن پر آسکتے ہیں، جسٹس امیر ہانی نے عالیہ رشید کے حوالے سے انکے وکیل سے استفسار کیا کہ ڈی جی نیب عالیہ رشید کی تعیناتی کیسے ہوئی جس پر انکے وکیل کا کہنا تھا کہ عالیہ رشید کو اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر تعینات کیا گیا تھا، اس پر جسٹس امیر ہانی نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے انکو تعینات
کیوں کیا ،جس پر انکے وکیل کا کہناتھا کہ عالیہ رشید ٹینس کی کھلاڑی تھی ،اس بنا پر انہیں تعینات کیا گیا ہے ،اس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی نے کسی کھیل میں ملک کا نام روشن کیا ہے تو اس کو ڈی جی نیب لگا دیا جائے گا ،وزیراعظم نے قانون کی کس شق کے تحت ہدایت جاری کی ،کیا آپ نیب میں ٹینس کھلوانا چاہتے ہیں ،کیا وزیراعظم کو ہدایت جاری کرتے وقت قانون کا علم نہیں تھا ، جسٹس قاضی فائز
عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اور صدر تمام قوانین سے بالاتر ہیں ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وزیراعظم کو بھی عوام کا ملازم سمجھیں ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا عالیہ رشید کی تعیناتی مارشل لاء کے دور میں ہوئی تھی ؟اس پر عالیہ رشید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میری موکل کو اس وقت کے منتخب وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے تعینات کیا ،1995میں عالیہ رشید نے سری لنکا میں چمپئن
شپ جیتی ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی چاہتے ہیں لیکن اسکا مطلب نہیں کہ ڈی جی نیب لگا دیا جائے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عالیہ رشید اتنی اچھی کھلاڑی تھیں تو انکو سیکرٹری سپورٹس لگا دیتے ، کیا وزیراعظم کیخلاف نیب آرڈیننس کی سیکشن 9کا کیس بنتا ہے ،اس پر عالیہ رشید کے وکیل حافظ ایس اے رحمان نے موقف اختیار کیا کہ اس بارے کوئی تبصرہ نہیں کروں گا ، یہ
سوال نیب سے پوچھا جائے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے عالیہ رشید کے لیے نیب کو آپشن دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے نیب میں سپورٹ سیل بنا لیا جائے اور انکو سپورٹ سیل بھیج دیں ، کم تعلیم یافتہ کونیب میں بھرتی کرکے ادارے کو تباہ کردیا گیا ، عالیہ رشید کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ڈی جی نیب خیبر پختونخوا کے وکیل ملک قیوم عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا سلیم شہزاد کو ون سٹیپ
پروموشن دی گئی ہے ؟اس پر ملک قیوم موثر جواب نہ دے سکے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملک صاحب آپ ذہین آدمی ہیںآپکو سوال سمجھ کیوں نہیں آ رہا ، جس پر ملک قیوم ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر گھبراہٹ ہو رہی ،سلیم شہزاد آرمی سے ڈیپوٹیشن پر نیب میں آئے ،وہ مطلوبہ اہلیت پر پورا اترتے ہیں ،اس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے گھبراہٹ کے باوجود ساری باتیں کر لی ہیں جس
پر ملک قیوم ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ سب آپکی مہربانی ہے عدالت نے کیس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کرتے ہوئے چیئرمیں نیب کو ہدایت کی کہ غیر قانون طریقے سے نیب میں بھرتی ہونے والے نو افسران کو دفتر بلا کر عدالتی آپشن کے بارے میں آگا ہ کردیں منگل کو کیس کی سماعت مکمل کر کے بدھ تک فیصلہ سنائیں گے ۔