پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

پانامہ کیس،قانون پرفیصلہ دینگے لوگوں کی خواہشات پرنہیں ،سپریم کورٹ

datetime 27  جنوری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آئی این پی ) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ نہیں کر رہی تاہم عدالت سست روی کا شکار نہیں ہے، ہم کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے اور قانون پر فیصلہ دیں گے، لوگوں کی خواہشات پر نہیں ، انصاف کے تقاضے پورے ہونے تک کیس سنیں گے اور یہ کیس تب تک سنیں گے جب تک

 

مطمئن نہیں ہوتے،نیب بتائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیا ؟ نیب ریکارڈ اور دساویزات پیر تک عدالت میں جمع کرادے، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی نامہ کیسے دیا گیا،دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے معافی نامے سے پہلے اعترافی بیان ریکارڈ کرا یا یا بعد میں ؟،معافی پہلے دے دی گئی اور بیان بعد میں ریکارڈ کرایا گیا تو ملزم گواہ بن جا تا ہے،بظاہر لگتا ہے کہ پہلے معافی دی گئی پھر اعترافی بیان ریکارڈ کیا گیا، اگر ایسا ہے تو پھر اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی بہت اہمیت ہے، بتایا جائے کیا اسحاق ڈار کو معافی دی گئی تھی ،پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل نے میاں شریف کی جائیداد کی تقسیم اور تحائف کی تفصیلات پیش کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے پیر تک مہلت مانگ لی۔جمعہ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کے احکامات کے حوالے سے وزیر اعظم کے وکیل

 

مخدوم علی خان سے میاں شریف کی جائیداد کی تقسیم اور وزیر اعظم نواز شریف اور بچوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کے حوالے سے دستاویزات پیش کر نے کا کہا توانہوں نے عدالت سے پیر تک مہلت مانگ ۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ پہلے کہا گیا کہ تمام دستاویزات موجود ہیں اور پیش کر دی جائیں گی اور اب پیر تک مہلت طلب کی جا رہی ہے۔اسحاق ڈار کے و کیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ

 

درخواست گزاروں کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ 25اپریل 2000ء کو اسحاق ڈار نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیا ن دیا اور اسحاق ڈار نے بھی اعترافی بیان میں 14.866ملین ڈالر روپے کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا۔درخواست گزاروں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے بھائی کیلئے اکاؤنٹ کھلوائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ الزام ہے سکندر مسعود، طلعت مسعود کے نام سے وزیر اعظم کے بھائی کیلئے اکاؤنٹ کھلوائے گئے

 

جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیااسحاق ڈار اپنے بیان حلفی سے انکاری ہیں تو وکیل شاہد حامد نے جوا ب دیا کہ اسحاق ڈار اپنے بیان کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ فوجی بغاوت کے بعد انہیں پہلے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔مشرف حکومت میں پہلے سے لکھے گئے بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے جبکہ بیان لینے کے بعد انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار 2001ء تک فوج کی تحویل میں رہے اور

 

رہائی کے بعد تفصیلی انٹرویو میں اپنے بیان کی تردید کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ اعترافی بیان عدالت عالیہ پہلے ہی مسترد کر چکی ہے جس پر وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ 15اکتوبر 1999ء کو اسحاق ڈار کو حراست میں لیا گیا۔ 1994ء ں حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپر ملز کے خلاف 2ایف آئی اڑ کاٹی گئی۔ میاں محمد شریف ، حسین ، عباس ، نوازشریف ، شہباز شریف اور حمزہ شبہاز نامزد تھے۔ان ایف آئی آرز پر

 

چالان پیش ہوا اور کیس کا فیصلہ 1997ء میں ہوا۔ ماتحت عدالت نے تمام نامزد ملزمان کیخلاف چالان ختم کرتے ہوئے بری کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس میں صرف چالان ختم ہوا ، ایف آئی آر موجود ہیں ، بتایا جائے ایک درخواست میں صرف چالان ختم ہوا اور ملزمان بری ہو گئے یہ کیسے ممکن ہوا۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ عدالت عالیہ رٹ پٹیشن میں ایسا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے ؟ شاہد حامد

 

نے کہا کہ یہ بیان صرف کاغذ کا ٹکرا تھا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کاغذ کا ٹکرا نہیں شواہد کا حصہ ہے جس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی ، نیب ریفرنس تحقیقات قانون کے تحت نہ ہونے پر خار ج ہوا اور ہائی کورٹ نے اس کیس کو تکنینکی بنیادوں پر ختم کیا تھا۔اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ نیب ریفرنس میں بھی وہی الزامات لگائے گئے تھے جو ایف آئی اے نے مقدمے میں لگائے۔

 

1997ء میں عدالت عالیہ ان الزامات پر ملزمان کو بری کر چکی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اسحاق ڈار کیخلاف کیس میں 2ججز نے انٹرا کورٹ اپیل سنی جو عموماْْ 5ججز سنتے ہیں۔شاہد حامد نے جواب دیا کہ پروٹیکشن قانون کے تحت الزام میں بری ہونے پر دوبارہ کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جب پروٹیکشن قانون بناتو نوازشریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے ؟ تو شاہد

 

حامد نے جواب دیا کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے اور نہ ہی ایم این اے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت نے کہا کہ اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کیس میں نیب کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنی چاہئیے تھی۔ چیئرمین نیب اپیل میں سپریم کورٹ آتے تو ہم دوبارہ تفتیش کرنے کا حکم دیتے۔ شریف فیملی کیخلاف 1994ء کی ایف آئی آر اور 2000ء کی ایف آئی آر میں کوئی تعلق نہیں۔ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا شریف فیملی کے فننانشل کرائم سے

 

بھی کوئی تعلق نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کسی بھی ملزم کو شامل تفتیش کیے بغیر کیس ختم کر دیا گیا ؟ تو شاہد حامد نے جواب دیا کہ اس وقت حمزہ شہباز کے علاوہ سب لوگ بیرون ملک تھے جس پر عدالت نے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شامل تفتیش نہ ہو تو 12ارب کا معاملہ ختم کر دیا جائے گا ؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کیا اس قانون کے مطابق بیرون ملک اکاؤنٹس کو بھی تحفظ

 

حاصل تھا ، کیا فارن کرنی اکاؤنٹس کو اکنامک ریفارمز میں پروٹیکشن دی گئی ؟ پاکستان میں موجود فارن کرنسی اکاؤنٹس کو تحفظ دیا گیا ہے مگر بیرون ملک فارن کرنسی اکاؤنٹس کو نہیں جس پر ایڈوکیٹ شاہد حامد نے جواب دیا کہ صرف ملک کے اندر اکاؤنٹس کو تحفظ ھاصل تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نعیم بخاری نے بتایا تھا بیان حلفی کیس میں نیب نے اپیل نہیں کی۔ کیا اسحاق ڈار کو بیان سے قبل وعدہ معاف گواہ بنایا گیا یا بعد میں َ؟

 

وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ کیس 2گراؤنڈز پر ذختم کیا گیا ، اسحاق ڈار کو اعترافی بیان دینے سے قبل وعدہ معاف گوا ہ بنایا گیا تھا۔ حدیبیہ پیپز ملز کا ابتدائی ریفرنس 27مارچ 2000ء کو بنایا گیا اور حتمی ریفرنس 16نومبر 2000ء کو بنایا گیا۔ 2012ء کو ریفرنس کو ہائیکورٹ کے 2ججز نے ختم کیا لیکن دوبارہ تفتیش پر اختلاف کیا جبکہ ریفری جج نے 2014ء کو دوبارہ تفتیش کیلئے اختلافی فیصلے میں تفتیش نہ کرانے کا فیصلہ

 

دیا۔سپریم کورٹ نے نیب سے منی لانڈرنگ ریفرنس کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے ریمارکس دئیے کہ نیب بتائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیا ؟ نیب ریکارڈ اور دساویزات پیر تک عدالت میں جمع کرادے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی نامہ کیسے دیا گیا۔دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے معافی نامے سے پہلے اعترافی بیان ریکارڈ کرا یا یا بعد میں۔

 

اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب نے اسحاق ڈار سے کہا ریکارڈ چھان مارا مگر بدعنوانی سامنے نہیں لا سکے۔ اسحاق ڈار اعترافی بیان کے باوجود 17ماہ تحویل میں رہے۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ نہیں کر رہی تاہم عدالت سست روی کا شکار نہیں ہے، ہم کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے اور قانون پر فیصلہ دیں گے، لوگوں کی

 

خواہشات پر نہیں ، انصاف کے تقاضے پورے ہونے تک کیس سنیں گے اور یہ کیس تب تک سنیں گے جب تک مطمئن نہیں ہوتے۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…