اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی۔اس موقع پرسپریم کورٹ نے قراردیاہے کہ تقریر کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دینے کی مثال قائم کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، تقریر پر فوجداری کیس کیسے بن سکتا ہے؟ رقم منتقلی میاں شریف نے کی تو حساب بچوں سے کیسے مانگ سکتے ہیں ؟ عدالت نے سوال کیا کیا تحریک انصاف پاناما کے معاملے سے پیچھے ہٹ رہی ہے ؟۔
پاناماکیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے سوال اٹھایا کہ کیا تقریر پر کسی کو نااہل کرسکتے ہیں ؟ تقریر کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دینے کی مثال قائم کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، وزیر اعظم کی تقریر پر فوجداری کیس کیسے بن سکتا ہے ، ہم وزیر اعظم کی پاناما پیپرز میں ذمہ داری کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر پر فیصلہ سنا دیں ۔ فیصلہ دینے کے لیے دستاویزات کا جائزہ لینا ضروری ہے ، کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلے دے سکتے ہیں ، آپ کہتے ہیں مریم نواز شریف بینی فشل ہیںجبکہ مریم نوازکہتی ہیں کہ وہ ٹرسٹی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اگروزیراعظم نے کچھ غلط کیاہے تواس کافیصلہ بھی شواہدکی بنیادپرکیاجائے گا۔سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریرمیں جدہ فیکٹری کےلئے سرمایہ سعودی بینک سے لینے کی بات کی جبکہ دوسری تقریرمیں انہوں نے سعودی بینک اوردبئی سٹیل میں سرمایہ کاری کرنے کاذکرکیاہے ۔اس موقع پرجسٹس اعجازافضل نے کہاکہ شریف فیملی کاساراکاروبارمیاں شریف کے ہاتھوں میںتھا۔انہوں نے کہاکہ اس رقم کی منتقلی میں میاں شریف کے بچوں کوکیسے قابل احتساب ٹھہرایاجاسکتاہے اوراگرکچھ ہوابھی ہے تواس کے بچے کیسے ذمہ دارہوتے ہیں ۔
مقدمے کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہاکہ اسحاق ڈارکی منی لانڈرنگ کی تحقیقاتی رپورٹ تیارہوئی ہے جس پرجسٹس عظمت نے ان سے استفسارکیاکہ رپورٹ کس نے تیارکی تونعیم بخاری نے جواب دیاکہ رپورٹ رحمان ملک نے تیارکی تھی ۔اس پرریمارکس دیتے ہوئے جسٹس عظمت نے کہاکہ ایف آئی اے کی رپورٹ پرفیصلہ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ رپورٹ پہلے ہی مستردکی جاچکی ہے اوراس پرفیصلہ دیابھی نہیں دیاجاسکتاہے ۔