اسلام آباد (آن لائن) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کو نشانِ امتیاز ملٹری کے اعزاز سے نوازا گیا۔اعزازات دینے کی تقریب اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں ہوئی، جس میں صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، اسپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق، وفاقی وزراء ، اور اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا، جس کے بعد صدر ممنون حسین نے پیشہ وارانہ خدمات کے اعتراف میں جنرل زبیر محمود حیات اور جنرل قمر جاوید باوجوہ کو نشانِ امتیاز ملٹری نے نوازا۔یاد رہے کہ 26 نومبر کو صدر ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پر لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات اورلیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی تھی، جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔
قمر جاوید باجوہ آرمی کی سب سے بڑی 10 ویں کور کو کمانڈ کرچکے ہیں جو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ ہیں۔وہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں معاملات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اور بطور میجر جنرل انہوں نے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی سربراہی کرچکے ہیں۔انہوں نے 10 ویں کور میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر بھی بطور جی ایس او خدمات بھی انجام دی ہیں۔
جنرل زبیر محمود حیات مسلح افواج کے بطور سی جے سی ایس سی17ویں سربراہ ہیں۔جنرل زبیر حیات کا تعلق آرٹلری رجمنٹ سے ہے اور وہ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویڑن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں جو کہ این سی اے کا سیکریٹریٹ ہے۔جنرل زبیر نے 24 اکتوبر 1980 میں آرٹلری رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ فورٹ سل اوکلوہوما (امریکا)، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج
کیمبرلے (برطانیہ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ ہیں۔
آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کو بڑے اعزاز ات سے نواز دیا گیا ، یہ اعزاز انہیں کیوں دیئے گئے ؟
31
دسمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں