اسلام آباد (نیوز ڈیسک )پاکستان میں مبینہ بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری کا معاملہ بظاہر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس میں ایران نے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
پاکستان میں رواں ماہ وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر ایرانی صدر حسن روحانی کے دورے سے ایک دن پہلے میبنہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی اور یہ گرفتاری پر خاصی حد تک اثر انداز بھی ہوئی۔پاکستان میں را کی سرگرمیوں کا تذکرہ گذشتہ تقریباً ایک برس کے دوران تسلسل سے ہو رہا ہے جس میں اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کے اقدامات کا حکومتی سطح پر اعلان کیا جا چکا ہے جبکہ فوجی قیادت بھی عوامی سطح پر را کی مبینہ مداخلت کے بارے میں آگاہ کر چکی ہے۔
لیکن اس بار را کی سرگرمیوں کے بارے میں ہدف بھارت کی بجائے ایران نظر آ رہا ہے جس میں مبینہ جاسوس یادو کے ایران میں موجود نیٹ ورک کے بارے میں معلومات مانگی جا رہی ہیں۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں مبینہ جاسوس کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا اور اس کی اعترافی ویڈیو بھی میڈیا کو دکھا گئی۔
تاہم وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اس حساس معاملے پر خاموشی کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے لگے تو جمعرات کو صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف مبینہ بھارتی جاسوس کے معاملے پر حکمت عملی کے تحت خاموش ہیں۔
ایران کے پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے زیادہ بہتر تعلقات تصور کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے گوادر کی حریف سمجھی جانے والی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر و توسیع میں بھارتی حکومت دلچسپی لے رہی ہے۔ اگر اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک ایسے ایران کے ساتھ حد سے زیادہ بہتر تعلقات میں گرمجوشی نہیں دکھائی گی جس کے بھارت کے ساتھ زیادہ گہرے تعلقات ہوں۔
اسی وجہ سے مبینہ جاسوس کی جانب سے دی جانے والی معلومات میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ٹارگٹ کرنے کا ذکر بھی نمایاں رہا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارت سے زیادہ بہتر معاشی رشتے استوار کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ بھی تکمیل سے کہیں دور دکھائی دیتا ہے۔
جس میں بھارتی وزیراعظم کے لاہور کے سرپرائز دورے کے بعد پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آگیا اور اب یہ اطلاعات بھی میڈیا پر دی جا رہی ہیں کہ مبینہ جاسوس کلبھوشن یادو سے تحقیقات کی روشنی میں مبینہ طور پر شریف خاندان کی ملکیتی رمضان شوگر مل سے دو بھارتی انجینیئروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جمعرات کو ہی پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ سے جب صحافیوں نے مبینہ طور پر رمضان شوگر مل سے بھارتی شہریوں کو حراست میں لیے جانے سے متعلق سوالات کیے گئے تو ڈان اخبار کے مطابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اس کو غلط اور مضکحہ خیز قرار دیا لیکن جب دوبارہ سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک کسی ایجنسی نے اس حوالے سے رپورٹ نہیں دی۔‘
ایسی کی کچھ صورت حال دو دن پہلے اس وقت سامنے آئی جب اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات اور فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں دو شہریوں کی گرفتاری اور مل مالکان کے خلاف ممکنہ کارروائی کے سوال پر فوجی ترجمان نے کہا: ’میں نے ایسی کوئی خبر ریلیز نہیں کی، پتہ نہیں آپ نے کہاں سے یہ خبر دیکھی۔‘
اس پر فوج کے ترجمان کے برابر میں بیٹھے وفاقی وزیر پرویز رشید نے فوری مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کی پریس بریفنگ را کی اس ایجنٹ ہی کی گرفتاری سے متعلق ہے اور مہربانی کر کے اسی موضوع پر رہیں، اس کے علاوہ دوسری باتیں پھر آنے والے دنوں میں کرتے رہیں گے۔‘
’جاسوس کےمعاملے پر وزیراعظم کی پالیسی‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں