اسلام آباد (نیوزڈیسک) کراچی آپریشن کے حوالے سے رینجرز کا کہنا ہے کہ اس کا آپریشن منظم انداز سے اور قانون کے مطابق جاری ہے اور وہ اپنا کیس کا کسی بھی فورم پر دفاع کرنے کو تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ پانچ سے سات ہزار تفتیشی رپورٹس اور مجرموں کے اعترافی بیانات کو پراسیس کرنے کے مرحلے میں ہے، ان رپورٹس سے کراچی مافیا اور اس کا سیاسی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ روزنامہ جنگ کے تجزیہ نگارانصارعباسی کی رپورٹ کے مطابق
کراچی رینجرز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا آپریشن قانون کی وضع کردہ حدود اور پالیسی کے مطابق ہے اور وہ سسٹم کو جوابدہ ہیں۔ رینجرز کے ایک سینئر ذریعے کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی بھی مانیٹرنگ کمیٹی یا کمیشن سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہم اپنا کام قانون کے مطابق کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز کے پاس بہت سارے ثبوت ہیں جن میں پانچ سے سات ہزار تفتیشی رپورٹس بھی شامل ہیں جن سے کراچی مافیا اور اس کے سیاسی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے جو قتل، بھتے، اغوا برائے تاوان اور نسلی و فرقہ ورانہ فسادات میں ملوث ہے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تفتیشی رپورٹس اور اعترافی بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی مافیا کس ظالمانہ انداز سے اپنی حکمرانی کو مضبوط بنانے کیلئے قتل عام کی وارداتوں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ ذرائع کے مطابق، رینجرز کے پاس اطلاعات ہیں کہ کس طرح ایک مخصوص گروپ نے شیعہ، سنی، ڈاکٹروں اور پولیس والوں وغیرہ کو قتل کیا اور کس کے احکامات پر فرقہ واریت پھیلائی جاتی تھی تاکہ مافیا کا فائدہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ رینجرز نے مافیا کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہر کوئی کراچی آپریشن کے ثمرات دیکھ سکتا ہے اور اب چیلنج یہ ہے کہ امن کو برقرار رکھا جائے۔ رینجرز کے ایک ذریعے نے بتایا کہ رواں سال یومِ آزادی پر کراچی میں پاکستانی جھنڈوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے جبکہ شہر کی عمارتوں پر بھی ماضی کے مقابلے میں 300 فیصد زیادہ چراغاں کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اندرون سندھ بھی یومِ آزادی کا شاندار جشن منایا گیا ہے۔ امن کو برقرار رکھنے کیلئے رینجرز سمجھتی ہے کہ کراچی میں جرائم اور تشدد کے حوالے سے عدم برداشت کا رویہ رکھنا ہوگا۔ کراچی کی ایک بڑی سیاسی پارٹی پر الزام ہے کہ اس نے جرائم اور تشدد کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ رینجرز کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قاتلوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کو جیلوں میں بھی مالی مدد ملتی ہے اور انہیں مفت قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ الزام بھی ہے کہ اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے گرفتار ملزمان اور سزا یافتہ مجرموں کو ماہانہ 5 سے 25 ہزار روپے ملتے ہیں۔ جرائم کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل، اغوا اور بھتے کی وارداتیں عام کارکنوں کے ذریعے کرائی جاتی ہیں جبکہ پارٹی رہنمائوں کی اولادیں امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں پڑھتی ہیں یا ملازمتیں کرتی ہیں۔ رینجرز کے ذرائع سے آپریشن کی نگرانی اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کے ایم کیو ایم کے مطالبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ رینجرز کی کارروائیاں مکمل طور پر قانون ہیں لہٰذا کسی بھی کمیشن یا کمیٹی کے قیام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان ذرائع نے ایم کیو ایم کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ رینجرز ماورائے آئین قتل کے واقعات یا پارٹی کے کارکنوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ رینجرز نے ایم کیو ایم، لیاری گینگ، ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو پکڑا ہے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے ان کی اکثریت کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے اور فی الحال اپنی جان بچانے مصروف کراچی مافیا کو عمومی طور پر قتل اور اغوا کی وارداتوں کیلئے پہچانا جاتا ہے۔
کراچی میں امن وامان کی خرابی کاذمہ دارکون؟ رینجرزنے بڑااعلان کردیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں