اسلام آباد (نیوزڈیسک)نندی پور پاور پلانٹ،حکومت نے اعتراف کرلیا،شرم نہ آئی،وفاقی وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف تسلیم کرتے ہیں کہ نندی پور پاور پلانٹ متوقع مقدار کے مطابق بجلی پیدا نہیں کررہا اور بہت مہنگی بجلی پیداکر رہا ہے ،موصوف کے ا س اعتراف کے بعد عوام حق بجانب ہیں کہ حکومت جواب دے کہ عوام کے اربوں روپے ماہرین کے اس پراجیکٹ کے بارے میں انتباہ کے باوجود اس پراجیکٹ پر کیوں ضائع کئے گئے ،وزیر موصوف نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس پاور پلانٹ سے بجلی پیدا نہیں کی جاتی بلکہ صرف ضرورت کے وقت ہی اس سے پیداوار لی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ دھرنے دینے یا میرے استعفی دے دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا تھا، صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کی قیادت میں اراکین دھرنا بھی دیا تھا۔قومی اسمبلی سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 70فیصد اموات محنت مزدوری کرنے والوں کی ہوئیں، ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا۔کراچی میں قبرستانوں میں جگہ نہ ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قبرستانوں میں مردوں کو دفنانے کی جگہ نہیں مل رہی، جب قبرستان پر قبضہ کرکے کالونیاں بنا دی جائیں گی تو جگہ کیسے ملے گی، اگر قبرستانوں کی چائنہ کٹنگ کر دی جائے تو اس میں گنجائش واقعی کم پڑ جائے گی۔انہوں نے صوبائی حکومت کو تجویز دی کہ قبرستان بنانے کے لیے بھی فنڈز نکالیں، صوبے میں بڑے میگا ہاو¿سنگ پروجیکٹ بن رہے ہیں، قبرستانوں کے لیے بھی زمین مختص کی جانی چاہیے۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایمبولینسز اگر کم پڑ رہی ہیں، تو صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہ مسئلہ حل کرے البتہ وفاقی حکومت تمام تر ممکنہ وسائل مہیا کرنے کے لیے حاضر ہے، لیکن سندھ حکومت کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے۔کراچی میں بجلی بحران کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نیپرا کے افسران کراچی پہنچ چکے ہیں،تحقیقات شروع ہوگئی ہے، ایوان کے الیکٹرک کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے کہ کس طرح کے الیکٹرک کو دیکھا جائے۔انہوں نے بتایا کہ 2005 میں کے ای ایس سی (کراچی الکٹرک سپلائی کارپوریشن) پہلی بار نجی تحویل میں دی گئی جبکہ 2008 اکتوبر میں اس کی نجکاری کے معاہدے میں غیر قانونی طور پر ترمیم کی گئی اور کمپنی ایک نئے مالک کے حوالے کر دی گئی۔خواجہ آصف نے بتایا کہ کے الیکٹرک سے اب معاہدہ ختم ہو چکا ہے اب نیا معاہدہ ایوان سے منظوری کے بعد کیا جائے گا، اس میں کراچی کے عوام کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک اپنے پیداواری پلانٹ مکمل طور پر نہیں چلاتی اگر کے الیکٹرک اپنے تیل سے چلنے والے پلانٹس چلائے تو ان کو وفاق سے 650 میگاواٹ بجلی لینے کی ضرورت نہیں ہوگی، جبکہ یہ بجلی ملک کے دیگر صوبوں کو دی جا سکے گی۔انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے معاہدے کو کراچی کے عوام کے مفاد میں کھولنا چاہتے تھے، مگر کمپنی ہائی کورٹ چلی گئی اور انہوں نے وفاقی حکومت کے خلاف حکم امتناعی لے لیا لیکن اب معاہدہ ختم ہو گیا ہے لہذا وفاقی حکومت اب سپریم کورٹ جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قطر سے ابھی ایل این جی کے حوالے سے معاہدہ نہیں ہوا، اس سے پیدا ہونے والی بجلی فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی سے سستی ہوگی۔نندی پور پاور پلانٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ پلانٹ 5ارب روپے کی بجلی پیدا کر چکا ہے مگر جتنی بجلی اس کو پیدا کرنی تھی وہ متوقع مقدار کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہا، یہ بہت مہنگی بجلی پیدا کر رہا ہے اس لیے صرف ضرورت کے وقت اس سے پیداوار کی جاتی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مظفر گڑھ میں بجلی کے پیداواری پلانٹس پر جانے والے آئل ٹینکرز سے تیل چوری ہوتا ہے جس کی ماہانہ اربوں کی چوری ہوتی ہے۔خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ 2017 میں پاکستان میں اتنی بجلی ہو گی کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔84ارب روپے لاگت والا نندی پور پاورپراجیکٹ مطلوبہ پیداوار دینے میں ناکام ہوگیا،منصوبہ مہنگی بجلی فراہم کرنے والا یونٹ بن گیا ہے۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نندی پور پاور پروجیکٹ انتظامیہ نے دعوی کیا تھا کہ گیس سے چلنے پر نندی پورپاورپراجیکٹس سے 425میگاواٹ بجلی اپریل سے قومی گرڈ میں شامل ہوجائے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اعلان کردہ تاریخ سے تین ماہ زائد گزرنے کے باوجود بجلی گھرفعال نہیں ہوسکا اور اس وقت گیس کی بجائے ڈیزل سے محض 150میگاوٹ تک بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق منصوبے کی تکمیل کی راہ میں بڑی رکاوٹ تکنیکی خرابیاں ہیں، ابھی تک اس منصوبے میں کنورژن نہیں ہو پا رہی جس کی وجہ سے اس کی ٹربائنز کو گیس پر نہیں لایا جا سکا ہے اور اس کے کچھ پاور پلانٹس ابھی تک بند پڑے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نندی پور پاور پروجیکٹ کے حکام کو نیپرا سے مرضی کے ٹیرف ریٹس بھی نہیں مل سکے تھے۔ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 23ارب روپے لگایا گیا تھا جس میں اضافہ کے بعد اس کی مالیت 84ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔