جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ (ہم آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں قرار دے سکتے مگر آپ کے مطابق حالات کے مطابق فیصلے ہو سکتا ہے ۔ )۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایڈوائزری اختیار استعمال نہیں کر سکتے ۔ پیرزاد ہ نے کہاکہ اخلاقی طور پر یہ اختیار حاصل ہے۔( چیف جسٹس نے کہا کہ جب ریفرنس آئے گا تو تب ہی ایڈوائزری اختیار استعمال ہو سکتا ہے ۔ کیا اس سے ہٹ کر بھی رائے دے سکتی ہے ۔ ) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے ۔ ایڈوائزری اختیار ہے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ آرٹیکل 186 آپ کے پاس موجود ہے ۔( اگر اپ ملک کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ آپ کی آئینی ناکامی ہے ۔ جسٹس میں ثاقب نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریاست کو بچانا نظریہ ضرورت ہے ۔ ) پیرزادہ نے کہ اکہ یہ ذمہ داری صرف عدلیہ نہیں شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کا تحفظ کریں ۔ (چیف جسٹس نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں جو آڑدر جاری کیا گیا تھسا اس کے حوالے سے عدالت نے اپنا ایڈوائزری اختیار ازخود استعمال کیا تھا )۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے کراچی کے حالات پر ویک اپ کال دی تھی یہ آپ کا عدالتی اختیار ہے ۔ (سابق چیف جسٹس محمود الرحمان نے کہا کہ عدالت کو ناقابل اصلاح اور فیصلے کے لئے مداخلت کا اختیار حاصل ہے ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 199 اور 184 کے اختیار مساوی ہیں کیا ۔۔ ایسی کوئی آئین پرویژن موجود ہے کہ جس کے تحت غیر آئینی اقدام کے خلاف کارروائی کی جا سکے ۔سوائے آرٹیکل 199 کے ۔ حالانکہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی آئینی پرویژن موجود نہیں ہے ۔) کیا ہم کسی معامےل کو غیر آئینی قرار دے سکتے ہیں کیا ہم آئین کا دفاع کر سکتے ہیں ۔(آئین کے دفاع کو کس طرح سے کر سکتے ہیں اگر کوئی حملہ کرے گا تو تب ہی ہم اس کا دفاع کریں گے )۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے یہ اختیار ہمارے پاس مخصوص ہے اگر کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے تو ہم اس کو روکیں گے ۔ ( آئین کو محفوظ کرنے کے لئے ہم کس حد تک جا سکتے ہیں ۔ پانچ سال قبل آپ نے اس کا جواب کچھ اور دیا تھا ) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے حلف میں کہہ رکھا ہے کہ آپ آئین کا دفاع اور اس کو محفوظ رکھیں گے ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ( اگر ایسی بات ہے تو پھر ہمیں اس ملک کے ہر اہم ستون کو محفوظ رکھنا ہو گا ) یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آئینی ترمیم کے پارلیمنٹ کے اختیار کا بھی تحفظ کریں ۔